روس ميں جرمن سرکاری ملازمين کی تعداد ميں کمی، معاملہ کيا ہے؟
27 مئی 2023ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سينکڑوں جرمن سرکاری ملازمین بشمول سفارت کار، اساتذہ، اور سرکاری تنظیموں سے وابستہ افراد کو روس چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔
جرمن اخبار 'زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ نے ملکی وزارت خارجہ کے حوالے سے اپنی ايک رپورٹ ميں لکھا ہے کہ رواں سال اپريل ميں روسی وزارت خارجہ نے اپنے ہاں موجود جرمن مشنز اور تنظيموں کے عملے کی حد مقرر کرنے کا فيصلہ کيا۔ وزارتی بيان کے مطابق اس روسی فيصلے کے نتيجے ميں جون کے آغاز سے روس ميں تعينات جرمن عملے کی تعداد کو کافی کم کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ ماسکو حکومت نے يہ قدم برلن حکومت کی جانب سے روسی انٹيليجنس آفيسرز کی بے دخلی کے بعد سامنے آيا ہے۔
یوکرین نے جرمنی سے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل مانگ لیے
'پوٹن کے نظام میں کوئی کمزوری نہیں نظر آتی ہے'، جرمن خفیہ ایجنسی
رپورٹ کے مطابق یہ پيش رفت سفارت کاروں کی تعداد کو تو متاثر کرے گی لیکن سب سے زیادہ ثقافتی شعبے سے وابستہ افراد جيسے کہ وہ اساتذہ جو ماسکو میں جرمن اسکولوں میں پڑھا رہیں ہیں، ان کو متاثر کرے گی۔ کشیدگی کے ادوار میں جرمنی اور روس ایک دوسرے کے سفارت کاروں کئی بار ملک بدر کر چکے ہیں۔
جرمن شہریوں کے لیے سروسز کو محدود کر دیا گيا ہے۔ مثال کے طور پہ دستاوزات کی اجراء وغيرہ کے ليے مدت کافی بڑھ گئی ہے۔
گزشتہ برس فروری میں روس کی طرف سے یوکرین میں فوجی مداخلت کے ساتھ شروع ہونے والی روسی یوکرینی جنگ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ کا آج تک کا سب سے بڑا اور خونریز تنازعہ بن چکی ہے۔ یوکرین کی روس کے خلاف جنگ میں کییف کو فوجی امداد اور جنگی ساز و سامان مہیا کرنے کے حوالے سے امریکہ سب سے آگے ہے۔ لیکن یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر جرمنی کا نام آتا ہے، حالانکہ ماضی میں جرمنی کسی بھی مسلح تنازعے کے فریقین میں سے کسی کو بھی ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے ہمیشہ ہچکچاتا ہی رہا تھا۔
اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ ميں وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ' یہ روس کی جانب سے ایک یکطرفہ، بلا جواز اور ناقابل فہم فیصلہ ہے۔ اس فيصلے کی روشنی ميں وفاقی حکومت کو سفارتی سرگرميوں کے ليے اپنے عملے کو روس ميں رکھنا بھی ہے اور ان کی تعداد کو محدود بھی کرنا ہے۔
م ق / ع س (ڈی پی اے)