روس میں مظاہرے، پوتن پر انتخابی دھاندلی کا الزام
6 دسمبر 2011مظاہرین نے ماسکو میں الیکشن کمیشن کی جانب مارچ کیا۔ اس دوران تقریباﹰ تین سو مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ خبررساں ادارے اے پی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں میں اپوزیشن کی یہ سب سے بڑی ریلی ہو سکتی ہے۔
سینٹ پیٹرز برگ میں بھی ایسے ہی مظاہرے ہوئے جہاں ایک سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔
ولادی میر پوتن روس کے سابق صدر بھی ہیں، بلکہ وہ دو مرتبہ صدر رہ چکے ہیں۔ اکتیس دسمبر انیس سو ننانوے کو بورس یلسن کے ڈرامائی استعفے کے بعد ولادی میر پوتن نے پہلی مرتبہ صدارتی منصب سنبھالا تھا۔
وہ دو ہزار آٹھ تک لگاتار دو مرتبہ اس عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دَور میں روس کے معاشی استحکام کو بحال کیا۔ تاہم ان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ان کا طرز اقتدار آمریت پسندانہ تھا۔
پوتن نے حال ہی میں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ آئندہ برس کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے۔ انہوں نے یہ بات صدر دیمیتری میدویدیف کی جانب سے آئندہ برس کے انتخابات سے دستبردار ہونے کے اعلان کے بعد کہی تھی۔
روس میں ایسے اعلان کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا، جو بلآخر ستمبر میں ہونے ولی یونائیٹڈ روس کانفرنس میں سامنے آیا۔ اس سے بے یقینی کی فضا ختم ہوئی کہ صدارتی امیدوار کون ہوں گے۔
روس کے صدارتی انتخابات آئندہ برس مارچ میں ہوں گے۔ یونائیٹڈ روس پارٹی کے امیدوار کی جیت کے امکانات کو واضح قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب اتوار کے انتخابات کے بارے میں تعاون اور سلامتی کی یورپی تنظیم کے ساتھ متعدد کئی یورپی ملکوں نے روس کی حکمران جماعت یونائیٹڈ رشیا پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔
مبصرین کے مطابق اس حوالے سے شواہد موجود ہیں کہ کس طرح کئی سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ کو آزادنہ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ کیمونسٹ پارٹی نے بھی حکمران جماعت پر اسی نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق