روس نے سولہ ہزار یوکرینی بچے کس طرح اغواکیے؟
25 مارچ 2023یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد سے روسی فوج ہزاروں یوکرینی بچوں کو روس لے گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے یوکرین کے صدارتی دفتر کی ایک مشیر ڈاریا گیراسیمُچک سے بات کی ہے۔ انہیں یوکرینی بچوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اغوا کاری سے متعلق روسی ہتھکنڈوں کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح یوکرین ان بچوں کو واپس اپنے زیر قبضہ ملکی علاقوں میں لانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو: بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے یوکرینی بچوں کو اغوا کر کے روس لے جانے کے الزام میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بچوں کے حقوق کے لیے روسی کمشنر ماریا لیووا-بیلووا کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ کیا صرف یہی دو ذمہ دار ہیں؟
ڈاریا گیراسیمُچک: بہت سے لوگ ملوث ہیں، خاص طور پر مختلف روسی علاقوں میں مقامی حکام کے وہ نمائندے جو ان بچوں کوساتھ لے گئے ہیں۔ روسی حکام کے نمائندوں کی طرف سے چھوڑے گئے تمام ویڈیو شواہد کو یوکرین کے سرکاری استغاثہ نے دستاویزی طور پر محفوظ کیا اور تفتیش کاروں کے حوالے کیا ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں آئی سی سی کے سامنے مشتبہ افراد کی فہرست طویل ہوتی جائے گی۔
پوٹن اور بیلووا کے وارنٹ گرفتاری کا جاری ہونا ایک تاریخی قدم ہے اور بچوں کے اغوا کے ذریعے یوکرینی عوام کی نسل کشی تسلیم کیے جانے کی جانب پہلا قدم بھی ہے۔ 1948ء کے نسل کشی کے خلاف کنوینشن کے آرٹیکل دو، آئی سی سی کے آرٹیکل چھ اور یوکرین کے ضابطہ فوجداری کی دفعات کے مطابق بچوں کی قومی، لسانی یا نسلی شناخت تباہ کرنے کی غرض سے ان کی کسی ایک گروہ سے دوسرے گروہ میں منتقلی نسل کشی ہی کا ایک عنصر ہے۔
ڈی ڈبلیو: آپ کا کیا مطلب ہے؟ کیا روس یوکرین کے بچوں کو روسی بنانے کے لیے اغوا کر رہا ہے؟
ڈاریا گیراسیمُچک: جی ہاں، روس یوکرینی بچوں کے اپنی آبادی میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ وہ (روسی) جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچوں کو واپس دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ روس نے بچوں کو گود لینے اور اپنا شہری بنانے کے طریقہ کار کو تیز کر دیا ہے اور یوکرینی بچوں کے لیے مفت تعلیم کی پیشکش بھی کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ روسی نام نہاد طبی معائنے کر کے بچوں کا انتخاب بھی کر رہے ہیں، جس میں بچوں کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یوکرینی بچوں کو اپنی آبادی میں شامل کرنے کے لیے صحت مند ترین افراد کا انتخاب کر رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو: آپ کی رائے میں کیا یہ کسی بڑے روسی منصوبےکا حصہ ہے یا یہ موجودہ صورتحال ہی کا نتیجہ ہے؟
ڈاریا گیراسیمُچک: یوکرین پر حملے کے آغاز سے ہی روس کا واضح منصوبہ تھا کہ یوکرین کے بچوں کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس کا نفاذ 2014 میں کریمیا کے الحاق کے بعد شروع ہوا۔ روسیوں نے بچوں کی قومیتیں تبدیل کیں اور ایک نام نہاد 'ٹرین آف ہوپ‘ شروع کی، جس پر روس کے شہری غیر قانونی طور پر یوکرینی بچوں کو گود لینے کے لیے کریمیا کا سفر کر سکتے تھے۔ روس اس وقت پانچ مختلف طریقوں سے یوکرینی بچوں کو اغوا کر رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو: بچوں کے اغوا کی یہ پانچ طریقے کون سے ہیں؟
ڈاریا گیراسیمُچک: پہلے طریقہ کار کے تحت روسی نام نہاد فلٹریشن کے عمل کے دوران بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کرتے ہیں۔ والدین کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کے بچوں کو ان سے چھین لیا جاتا ہے۔ دوسرے طریقے میں روسی ایسے والدین کو مار دیتے ہیں اور بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
تیسرے طریقے کے تحت بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ والدین کے حقوق کو منسوخ کر کے بھی کیا جاتا ہے۔ یہ اکثر 'مسئلے کھڑے کرنے والے والدین‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے، جو اپنے علاقوں پر قابض روسی حکام کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہتے۔
چوتھا طریقہ وہ ہے جس میں روسی ہمیں ان بچوں کو دیکھ بھال کرنے والے اداروں سے لانے کی اجازت نہیں دیتے جو روس کے زیر قبضہ علاقوں میں ہیں۔ پانچواں اور آخری طریقہ سب سے زیادہ عام ہے۔ سب سے پہلے روسی قبضے والے علاقوں میں بچوں کے لیے انتہائی ناقص حالات زندگی پیدا کیے جاتے ہیں۔ پھر وہ والدین کو پیشکش کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو روس کے اندر ایک تفریحی کیمپ میں بحالی کے لیے بھیج دیں۔ لیکن یہ بچے کبھی بھی ان کیمپوں سے واپس نہیں آتے اور انہیں والدین کی اجازت کے بغیر کہیں اور لے جایا جاتا ہے۔ ہم جن بچوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے، ان میں سے کچھ تو ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے ایسے کیمپوں میں تھے۔
ڈی ڈبلیو: بچوں کو کیسے واپس لایا جا سکتا ہے؟
ڈاریا گیراسیمُچک: بچے کو تلاش کرنے اور اسے واپس لانے کے لیے آپ کو پہلے یہ جاننا ہوگا کہ آپ کو تلاش کس کو کرنا ہے۔ اس کے لیے ایک سرکاری پلیٹ فارم ''چلڈرن آف وار‘‘بنایا گیا ہے۔ اس میں ان بچوں کے بارے میں تازہ ترین معلومات اور ذاتی ڈیٹا موجود ہے، جو روس میں لیکن جنگ کی وجہ سے مصائب کا شکار ہیں۔ ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ آیا جس بچے کی تلاش کی جا رہی ہے، اس کے رشتہ دار یوکرین کے زیر کنٹرول علاقے میں ہیں جو سرپرستی کا انتظام کر سکتے ہیں اور یوکرینی ریاست کی مدد سے بچے کو روس سے واپس لا سکتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو: مغوی بچوں کی تازہ ترین تعداد کتنی ہے؟
ڈاریا گیراسیمُچک: تمام ڈیٹا ''چلڈرن آف وار‘‘ نامی پلیٹ فارم پر ہر صبح اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ اس وقت 16 ہزار سے زائد یوکرینی بچے ایسے ہیں، جنہیں ملک بدر کر کے زبردستی یوکرین سے لے جایا گیا۔ یہ صرف ایک تعداد ہی نہیں بلکہ والدین، رشتہ داروں، حکام یا گواہوں کی معلومات پر مبنی ناموں کی ایک بہت طویل فہرست ہے۔
یہ لاکھوں اغوا شدہ بچوں کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔ میڈیا میں روسی حکام سات لاکھ چوالیس ہزار یوکرینی بچوں کے نام نہاد 'انخلا‘ کی بات کرتے ہیں۔ لیکن فہرستوں یا ذاتی ڈیٹا سے اس تعداد کی تصدیق نہیں کی گئی، اس لیے ہم روسی حکام کی طرف سے بتائی گئی اس تعداد کو غیر حقیقی اور غیر یقینی سمجھتے ہیں۔
یہ مضمون ابتدا میں جرمن زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔
اولیکسانڈر کُونِٹسکی ( ش ر ⁄ م م)