روس کو یوکرین میں بڑا دھچکا، خیرسون سے پیچھے ہٹنے کا اعلان
10 نومبر 2022
آٹھ ماہ سے جاری جنگ کے بعد روسی فوج نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے خیرسون علاقے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ یہی وہ واحد علاقہ تھا جس پر روس کا پوری طرح قبضہ ہوسکا تھا لیکن یہ اعلان اس بات کا مظہر ہے کہ روس اس علاقائی دارالحکومت پر اپنا کنٹرول نہیں رکھ پا رہا ہے۔ حالانکہ یوکرین کا کہنا ہے کہ ماسکو کا یہ اعلان گمراہ کن بھی ہو سکتا ہے۔
روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگونے بدھ کے روز فوجیوں کو حکم دیا کہ وہ یوکرین کے جنوبی شہر خیرسون سے پیچھے ہٹ جائیں۔
خیرسون شہر دریائے نیپرو کے شمال میں واقع ہے۔
یوکرین کے چار علاقوں کو روس میں ضم کرنے کا اعلان
وزیر دفاع شوئیگو اور جنرل سرگیئی سوروویکن کا کہنا ہے کہ روسی فوج دریا کے دوسری طرف مورچہ سنبھالے گی کیونکہ یوکرینی فوج پیش قدمی کر رہی ہے۔
'یہ گمراہ کرنے کی کوشش ہے'
روس کے سینیئر فوجی کمانڈر جنرل سوروویکن نے ٹیلی ویژن پر ایک خطاب کے دوران کہا، "موجودہ صورت حال کا نہایت جامع انداز میں جائزہ لینے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ فوج دریائے نیپرو کے مشرقی کنارے کے ساتھ مورچہ سنبھالے گی۔"
انہوں نے ایک نقشے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ خیرسون شہر اور دریا کے بائیں طرف کے دیگر علاقوں تک سپلائی پہنچانا ممکن نہیں رہ گیا ہے لہذا شوئیگو بھی فوج کے پیچھے ہٹنے اور دریا کے دوسری طرف مورچہ سنبھالنے کی تجویز پر راضی ہوگئے ہیں۔
شوئیگو نے سوروویکن سے کہا، "فوج کو پیچھے ہٹانے کی کارروائی شروع کردیں اور تمام فوجیوں نیز ہتھیاروں اور دیگر سازوسامان کو دریا کے دوسری طرف محفوظ منتقلی کو یقینی بنانے کے حوالے سے تمام اقدامات کریں۔"
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روسی خیرسون سے پیچھے ہٹنے کا دکھاوا کر رہے ہیں تاکہ یوکرینی فوج کو گمراہ کرکے شہر میں بلاسکیں اور پھر براہ راست لڑائی میں الجھا سکیں۔
یوکرین اور روس کے مابین جنگ و الزامات کا تبادلہ جاری
خیرسون ایک اہم بندرگاہی شہر ہے اور روس کے قبضے والے کریمیا کا راستہ بھی اس سے ہو کر جاتا ہے۔
روس کے لیے بڑا دھچکا
خیرسون سے واپسی روس کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا کیونکہ یہ واحد بڑا شہر ہے جس پر گزشتہ آٹھ ماہ میں روسی فوج پوری طرح قبضہ کرپائی تھی۔ جب کہ کئی حملوں کے باوجود وہ یوکرین کے قومی دارالحکومت کییف اور دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف پر قبضہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خارکیف سے بھی روس کو جلد بازی میں پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔
سوروویکن نے بتایا کہ ایک لاکھ 15 ہزار لوگوں کو شہر سے دیگر محفوظ مقامات پر بھیجا گیا ہے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ لاحق تھا۔
دریں اثنا یوکرین کے صدر کے مشیر میخائلوف پوڈلیاک نے ٹوئٹر پر کہا کہ فی الحال روس صرف ایسی باتیں کر رہا ہے، کوئی اقدام نہیں۔ انہوں نے لکھا، "کام بولتا ہے، ہمیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ روس جنگ کیے بغیر خیرسون چھوڑ رہا۔
خیرسون میں یوکرین کے متعین کردہ گورنر یاروسلاف یانوسووچ نے شہریوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں "ابھی خوشی منانے کی ضرورت نہیں ہے۔"
روسی فوج، جنگی قیدیوں اور شہریوں پر ’تشدد‘ میں ملوث
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روسی فوج کو خیرسون میں جس طرح کی مزاحمت کا سامنا ہے اس کی وجہ سے وہ وہا ں سے واپسی کی تیاری بہت پہلے سے کر رہی تھی۔ یہ خارکیف سے پیچھے ہٹنے کے طریقہ کارکے یکسر برخلاف ہے، جہاں سے اسے اچانک پیچھے ہٹنا پڑا تھا اور وہ اپنا ہتھیار اور گولہ بارود بھی چھوڑ گئی تھی۔
جنرل سوروویکن نے گزشتہ ماہ ہی روسی فوج کے خیرسون سے واپسی کے اشارے دیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا،"حالات خاصے مشکل ہیں۔"
ج ا/ ص ز(اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی)