روسی حملے کے خلاف یوکرائن کا ردعمل کیسا ہے؟
اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ روسی افواج یوکرائنی سرزمین میں داخل ہو چکی ہیں۔ حملے کے جواب میں یوکرائن میں کیا ہو رہا ہے یعنی حکومت، فوج اور شہریوں کا ردعمل کیا ہے؟ یہ درج ذیل تصویر میں ملاحظہ کریں:
فوج کے مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ
روس نے بدھ 22 فروری کو مشرقی یوکرائنی علیحدگی پسند علاقوں ڈونٹیسک اور لوہانسک میں فوجی دستوں کو ’امن قائم کرنے والے فوجی دستے‘ قرار دے کر داخل کیا تھا۔ ان دونوں علاقوں کو روس نے آزاد ریاستوں کے طور پر بھی تسلیم کر لیا ہے۔ جمعرات کو روس نے یوکرائن پر بڑا حملہ بھی کر دیا۔ صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ وہ یوکرائن کو ’غیر فوجی‘ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یوکرائنی فوجی اہداف کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
’یوکرائن اپنا دفاع کرے گا‘
یوکرائنی وزیر دفاع دیمترو کُولیبا نے روسی فوجی کارروائی کو ایک بڑا حملہ قرار دیا ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ملک اپنا دفاع کرتے ہوئے جنگ جیتے گا۔ اس خطے میں روس کے بعد سب سے بڑی فوج بھی یوکرائن کی ہے لیکن روسی عسکری طاقت کے سامنے یوکرائنی حیثیت ’بونے‘ جیسی ہے۔ اس تصویر میں یوکرائنی ٹینک ڈونیٹسک علاقے کے شہر ماریوپول میں داخل ہو رہے ہیں۔
روسی حملے کا وقت علی الصبح
روس کے علی الصبح شروع کیے جانے والے حملے میں کییف، خارکیف اور اوڈیسا میں میزائل داغے گئے اور ان کے دھماکوں سے شہری جاگ اٹھے۔ روسی فوج کا دعویٰ ہے کہ حملے میں شہری علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ روسی شہری ہوابازی کی ایجنسی نے یوکرائنی فضائی زون کو فعال جنگی زون قرار دے دیا ہے۔ کییف کی زیرزمین ٹرین سسٹم کو خالی کر کے شہریوں کو اس میں پناہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پہلے فضائی اور پھر زمینی حملہ
کییف (ایک گرا ہوا میزائل) سمیت دوسرے شہروں پر میزائل داغے جانے کے بعد روس اور بیلاروس کے علاوہ کریمیا سے روسی فوجی دستے یوکرائن میں داخل ہو گئے۔ روسی زبان میں کی گئی ایک جذباتی اپیل میں یوکرائنی صدر وولودومیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک امن چاہتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملے کی صورت میں فرار نہیں ہوں گے بلکہ ملک کا دفاع کریں گے اور اپنے آزادی، زندگیوں اور بچوں کا بھی دفاع کریں گے۔
یوکرائنی شہریوں کا دوسرے مقامات کی جانب فرار
یوکرائنی صدر زیلنسکی نے ملک میں مارشل لا کا نفاذ کر دیا ہے اور لوگوں بلاوجہ خوف و ہیجان میں مبتلا ہوئے بغیر گھروں میں مقیم رہنے کی تلقین کی ہے۔ اس اعلان کے باوجود بے شمار یوکرائنی شہریوں نے فرار میں عافیت سمجھی ہے۔ لوگوں کی منتقلی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا۔ اس تصویر میں مشرقی یوکرائن میں لوگ فرار ہو کر مغربی علاقے کی جانب جا رہے ہیں۔
خریداری کے لیے قطاریں
دارالحکومت کییف میں پانی اور خوراک کے حصول کے لیے اسٹورز پر لوگوں کی طویل قطاریں بھی دیکھی گئیں۔ بعض لوگ محفوظ علاقوں کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔ کئی افراد شہر میں رہتے ہوئے مورچوں یا بنکروں میں پناہ لینے کو مناسب خیال کرتے ہیں۔ کیش مشینوں پر بھی بھیڑ دیکھی گئی۔ یہ تصویر مغربی یوکرائنی شہر لاویو کی ہے۔ لوگوں کو موٹر کاروں میں ایندھن بھروانے کی فکر بھی لاحق ہے۔
ملے جُلےجذبات
یوکرائنی عوام میں خوف اور بے یقینی کے ساتھ ساتھ ملکی دفاع کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ ابھی تک کئی یوکرائنی شہریوں کو یقین نہیں کہ روسی افواج ان کے ملک میں داخل ہو چکی ہیں۔ وسطی یورپی ممالک میں یوکرائنی مہاجرین کی آمد کی پیش بندی شروع ہے۔ انسانی ہمدردی کے گروپوں نے ممکنہ انسانی بحران کے جنم لینے سے خبردار کیا ہے۔ تصویر میں یہ جوڑا مشکل فیصلہ کر کے پولینڈ یا ملک کے مغرب کی جانب روانہ ہے۔