روسی شہر ایکترین برگ میں چار ابھرتی اقتصادی قوتوں کا سربراہ اجلاس
16 جون 2009روس میں ہونے والی یہ دونوں ہی کانفرنسز سیاسی اوراقتصادی صورت حال کے لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل ہیں۔
یورال پہاڑی سلسلے کے مشرقی کنارے پر واقع، جنگلوں اور چھوٹی چھوٹی جھیلوں سے گھرا ہوا خوبصورت روسی شہر ایکترن برگ تقریبا ایک درجن سربراہان مملکت کی میزبانی کررہا ہے۔ ایشیا اور یورپ کی سرحد پر واقع یہ شہر روسی دارالحکومت ماسکو سے تقریبا600کلومیٹر مشرق میں آئزت ندی کے کنارے واقع ہے۔ بھاری مشنری کے لئے مشہور یہ صنعتی شہر روس کا پانچواں سب سے بڑا شہر ہے۔ اقوام متحدہ سے باہر یہ غالبا یہ پہلا موقع ہے جب ایک ہی شہر میں ایک ہی دن دو مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی اہم کانفرنیس ہورہی ہے۔
شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن یعنی ایس سی او کی کانفرنس میں بھارت اور پاکستان کے رہنماء بھی مشاہد کی حیثیت سے شرکت کررہے ہیں۔ کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ گذشتہ سال نومبر میں بھارت کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور صدرپاکستان آصف علی زرداری پہلی مرتبہ بند کمرے میں آمنے سامنے ہوں گے۔
گوکہ ابھی تک سرکاری طور پر باہمی مذاکرات کے پروگرام کا اعلان نہیں کیا گیا ہے تاہم سمجھا جاتا ہے کہ دونوں ر ہنماء بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کو دوبارہ شروع کرنے کی سمت پیش رفت کا اعلان کر کرسکتے ہیں۔
ایس سی اس تنظیم کا قیام 15 جون 2001کو شنگھائی میں عمل میں آیا تھا۔ اس کا مقصد وسط ایشیائی ملکوں میں انتہاپسندی کے خلاف مشترکہ اقدامات کرنا ہے۔ بھارت پہلی مرتبہ چوٹی کی سطح پر اس کی میٹنگ میں حصہ لے رہا ہے۔ اب تک وہ اس وجہ سے اس کی میٹنگوں میں شرکت کرنے سے انکارکرتا رہا تھا کیوں کہ وہ اسے اپنی عالمی حیثیت سے کمتر سمجھتا تھا۔ حتی کہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے گذشتہ سال پارلیمان میں اس حوالے سے کہا تھا کہ وہ صرف کافی پینے کے لئے کسی کانفرنس میں نہیں جانا چاہتے۔
بھارتی خارجہ سیکریٹری شیو شنکر مینن کا کہنا ہے کہ روسی صدر کے اصرارپر وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ اس مرتبہ اس کی میٹنگ میں شرکت کررہے ہیں اور مشاہد کے درجے کے باوجود بھارت کو بند کمرے میں ہونے والی میٹنگ اور اس کاا علامیہ تیار کرنے میں شامل کیا جائے گا۔ پاکستان پہلے سے ہی مشاہد کی حیثیت سے ایس سی او کی میٹنگوں میں شرکت کرتا رہا ہے۔
تاہم پوری دنیا کی نگاہ یہاں ہونے والی BRIC کی میٹنگ پر ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نیا گروپ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کے گروپ جی سیون کے مقابلے میں ابھر سکتا ہے۔جب ڈوئچے ویلے نے نئی دہلی میں بھارتی تھنک ٹینک آبزرو ریسرچ فاونڈیشن میں وسط ایشیائی امور کے ماہر سمیر سرن سے پوچھا کہ BRIC کی کیا اہمیت ہے تو انہوں نے کہا یہ نیا گروپ توانائی، فائنانس، ڈیولپمنٹ اور غربت جیسے امور پر ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے اپنی رائے دے سکیں گے اور عالمی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گے۔ سمیر سرن کہتے ہیں کہ اس کانفرنس کے بعد BRICکی داغ بیل پڑ جائے گی اور حالیہ عالمی کسادبازاری کی وجہ سے اس کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب عالمی مالیاتی اداروں میں ان چارو ں ملکوں کی اہمیت زیادہ بڑھ جائے گی۔ تاہم سمیر سرن نے کہا کہ اس نئی تنظیم کے مقاصد کے حصول کا راستہ آسان نہیں ہوگا کیوں کہ بعض طاقتیں انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کریں گی۔
رپورٹ : افتخار گیلانی، ایکترن برگ(روس)
ادارت: عاطف توقیر