روسی صدر میدویدیف کا ایک سال
2 مارچ 2009روس ميں پچھلے مارچ ميں پوٹن کی جگہ صدر منتخب ہونے والے ميدويديف کے بارے ميں عام خيال يہ ہے کہ وہ سابق صدر کی کٹھ پتلی ہيں اوران کے خود اپنے سياسی نظريات نہيں اورنہ ہی وہ پوٹن کی سياست ميں کسی قسم کی تبديلی لانا چاہتے ہيں۔
رائے عامہ کا سروے کرنے والے غير جانبدارروسی انسٹيٹيوٹ ليوادا سينٹر کے مطابق اب بھی روس کے بارہ فيصد لوگ يہی سمجھتے ہيں کہ روس ميں اصل طاقت صدرميدويديف کے بجائے سابق صدراورموجودہ وزيراعظم پوٹن ہی کے ہاتھ ميں ہے۔
حقيقت يہ ہے کہ آزاد خيالی کے دعووں کے باوجود صدر ميدويديف سابق صدرہی کی پاليسی پرعمل کررہے ہيں۔ پچھلے سال کے دوران روس ميں سياسی طور سے کم ہی تبديلی آئی ہے۔
پوٹن کے بنائے ہوئے سياسی نظام ميں ميدويديف کی پوزيشن آسان نہيں ہے۔ عوام کی نظريں ان کی طرف نہيں، پوٹن ہی کی طرف اٹھتی ہيں۔ سياست اور اقتصاديت ميں روسی اشرافيہ، طاقتوروزيراعظم پوٹن کی پيروی کرتی ہے۔ رياستی قيادت ميں پوٹن کے وفاداروں کا غلبہ ہے۔
روسی سياست، ايک شخصی سياست ہے اوراسٹالن سے ييلسن تک اس کی پرانی روايت ہے ليکن، خاص طورسے پوٹن نے يیلسن کی جگہ اعلیٰ عہدوں پراپنے وفاداروں کا تقرر کيا۔ روسی سياست ميں يہ اصول دوسرے ملکوں سے زيادہ ہے کہ اہم عہدوں پراپنے حاميوں کولائے بغيراپنی سياست کا تصوربھی نہيں کيا جا سکتا۔
اس تناظر ميں يہ بات اہم ہوسکتی ہے کہ صدرميدويديف نے ايک ہزارايسے افسران کی فہرست تيار کرنے کی ہدايت کی ہے جنہيں آئندہ اعلیٰ عہدوں پر ترقی دی جائے گی۔ اس طرح وہ کم عمر اورزيادہ پيشہ ورانہ صلاحيت والے افراد کوآگے لانے کی آڑ ميں ايسی اشرافيہ پيدا کرسکتے ہيں جوان کے وفاداروں پرمشتمل ہو۔
ابھی يہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے نتيجے میں ان کی نئی سياست پيدا ہوگی، ليکن ميدويديف کوصرف پوٹن کی کٹھ پتلی سمجھنا غلط ہوگا۔ اگر کچھ اور نہيں تواقتصادی اورمالياتی بحران ہی انہيں پوٹن سے دورہٹنے پرمجبورکر سکتا ہے۔