1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی صدر پوٹن سرکاری دورے پر بھارت میں

جاوید اختر، نئی دہلی10 دسمبر 2014

روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھارت کے دو روزہ سرکاری دورے پر آج نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ اگلے ماہ امریکی صدر اوباما کے دورہ بھارت اور روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط کی وجہ سے اس دورے کو کافی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1E1wS
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Metzel

ولادیمیر پوٹن یوں تو سالانہ بھارتی روسی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں لیکن متعدد ملکوں کی نگاہیں ان کے اس دورے پر لگی رہیں گی۔ دونوں ممالک اس دوران پندرہ تا بیس معاہدوں پر دستخط کر سکتے ہیں۔ ان میں ایٹمی توانائی اور دفاعی تعاون میں اضافے سے لے کر ہیروں کی تجارت تک کے معاہدے شامل ہوں گے۔ نریندر مودی حکومت نے پوٹن کے اس دورے کو باہمی تعلقات میں ایک سنگ میل قرار دیا ہے۔

Modi Rede in Madison Square Garden 28.09.2014 New York
’وزیر اعظم مودی روس کے ساتھ تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ترین حصہ سمجھتے ہیں‘تصویر: Reuters/Lucas Jackson

بھارتی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری اجے بساریا کے مطابق وزیر اعظم مودی روس کے ساتھ تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ترین حصہ سمجھتے ہیں۔ وہ ماضی میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر روس کے تین دورے کر چکے ہیں۔ اجے بساریا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ روس دفاع، جوہری توانائی، سائنس اور خلاء جیسے اسٹریٹیجک سیکٹرز میں بھارت کا اہم پارٹنر ہے۔ وہ دفاع کے شعبے میں بھارت کا بنیادی پارٹنر ہے اور عشروں تک رہے گا۔ ہم ان باہمی تعلقات کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔‘‘
اسی دوران روسی صدر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں بھارت کوروس کا ایک معتبر اور آزمودہ دوست قرار دیتے ہوئے ایسے دعووں کی تردید کی کہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں کمی آئی ہے۔ صدر پوٹن نے مزید کہا کہ وہ اس دورے کے دوران بھارت میں نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر، سخوئی سپر جیٹ جنگی طیاروں، ایم ایس۔21 طرز کے مسافر بردار طیاروں اور روسی ٹیکنالوجی پر مبنی اسمارٹ سٹی قائم کرنے میں تعاون کی بات کریں گے۔

ولادیمیر پوٹن نے روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون پر بعض حلقوں کی تشویش کو بھی بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ ماسکو نے پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی اور منشیات کے کاروبار کے خلاف کارروائیوں کو مؤثر بنانے کے طریقہ کار پر بات کی ہے اور اس طرح کے تعاون سے طویل المدتی بنیادوں پر بھارت سمیت خطے کے تمام ملکوں کو فائدہ ہو گا۔
خیال رہے کہ بھارت اپنی دفاعی ضروریات کے لیے اب صرف روس پر انحصار کرنے کے بجائے دیگر ملکوں سے بھی دفاعی ساز و سامان درآمد کرتا ہے تاہم سفارتی لحاظ سے وہ اب بھی روس کو کافی اہمیت دیتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نئی دہلی کا ماسکو کے ساتھ کسی معاملے میں کوئی بڑا اختلاف کبھی نہیں رہا جبکہ سرد جنگ کے زمانے میں ماسکو کشمیر پر بھارت کے موقف کی مسلسل تائید کرتا رہا ہے اور افغانستان، ایران نیز دہشت گردی جیسے بین الاقوامی امور پر بھی دونوں ملکوں کے موقف یکساں ہیں۔

Barack Obama
’صدر پوٹن کے اس دورے سے جنوری میں صدر اوباما کے دورہ بھارت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘تصویر: Getty Images/K. Dietsch

اس کے علاوہ دونوں ممالک عالمی اداروں پر مغرب کے بڑھتے ہوئے غلبے کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹر ی اجے بساریا نے کہا، ’’روس اور ہمارے درمیان متعدد اہم عالمی معاملات، بالخصوص مشترکہ پڑوس میں دہشت گردی کے خطرات کے حوالے سے ہمارے نظریات یکساں ہیں۔‘‘ بساریا نے مزید کہنا،’’بھارت نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ روس کے خلاف کسی بھی طرح کی اقتصادی پابندیوں کی حمایت نہیں کرے گا۔‘‘
خیال رہے کہ ولادیمیر پوٹن کا بھارت کا یہ چھٹا دورہ ہے جبکہ وزیر اعظم مودی کے ساتھ یہ ان کی تیسری ملاقات ہوگی۔ پوٹن اپنے ساتھ ایک بڑا تجارتی وفد لے کر آ رہے ہیں اور وہ بھارت میں صنعت و تجارت سے وابستہ اہم افراد سے بھی ملاقات کریں گے۔

اسی دوران امریکا کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن کے اس دورے سے جنوری میں صدر اوباما کے دورہ بھارت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نئی دہلی اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات کا سلسلہ اپنی رفتار سے آگے بڑھتا رہے گا۔