روسی معیشت کی حالت مزید ابتر، سرمایہ کم ہوتا جا رہا ہے
15 اپریل 2016روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعرات 14 اپریل کے روز ہر سال کی طرح ایک ٹی وی پروگرام میں کئی گھنٹوں تک روسی عوام کے سوالات کے جوابات دیے۔ ان جوابات میں پوٹن نے اپنے سیاسی فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کو لاحق پریشانیوں کو کم کرنے کی کوشش کی۔
ولادیمیر پوٹن نے اس ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ملکی معیشت کی کارکردگی میں اگلے برس بہتری آئے گی اور ماسکو حکومت جلد ہی افراط زر کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح پر بھی قابو پا لے گی۔ لیکن ڈوئچے ویلے کے آندریاز بیکر لکھتے ہیں کہ اصل میں روسی اقتصادیات کی حالت اس سے کہیں زیادہ خراب ہے، جتنا کہ خود صدر پوٹن اعتراف کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔
روسی معیشت کو گزشتہ برس اس وقت سے بحرانی صورت حال کا سامنا ہے، جب روس کی مجموعی اقتصادی کارکردگی میں چار فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پیش گوئی کی ہے کہ سال رواں کے دوران بھی روس کی سالانہ اقتصادی کارکردگی میں مزید دو فیصد کی کمی ہو جائے گی۔
روس کے ان اقتصادی اور مالیاتی مسائل کی کئی وجوہات ہیں، مثال کے طور پر روس کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جن کے سالانہ بجٹ کا کافی حد تک انحصار تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی پر ہوتا ہے۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پچھلے دو برسوں میں عالمی منڈیوں میں تیل کی فی بیرل قیمتیں کم ہو کر نصف سے بھی کم ہو چکی ہیں اور اس وجہ سے روسی ریاست اور تیل کمپنیوں کی آمدنی واضح طور پر کم ہو چکی ہے۔
خارجہ سیاسی امور کی جرمن تنظیم (DGAP) کے روس سے متعلقہ امور کے ماہر شٹیفان مائسٹر کہتے ہیں، ’’خام تیل اور گیس کی اتنی کم قیمتوں کی وجہ سے (روس کے لیے) اپنے سالانہ بجٹ کے لیے کافی مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانا انتہائی مشکل ہے۔‘‘
برلن کے اس تھنک ٹینک کے شٹیفان مائسٹر کے مطابق روسی حکومت اگر بجٹ میں موجودہ خسارے کو پورا کرنا چاہتی ہے تو اسے لازمی طور پر ان محفوظ ریاستی مالی ذخائر کو استعمال میں لانا ہو گا، جو گزشتہ برسوں کے دوران تیل اور گیس کی بہت اونچی قیمتوں کے دور میں منافع کے نتیجے میں جمع کیے گئے تھے۔
روس کے مالیاتی مسائل کی ایک اور اہم وجہ مغربی دنیا کی طرف سے عائد کردہ وہ پابندیاں بھی ہیں، جو روس کی طرف سے یوکرائن کے علاقے کریمیا کو متنازعہ طور پر اپنے ریاستی علاقے میں شامل کرنے کے بعد عائد کی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں روس کو بیرونی تجارت سے ہونے والی آمدنی میں کمی کا بھی سامنا ہے۔
ماسکو میں توانائی سے متعلقہ سیاسی امور کے ادارے کے ماہر ولادیمیر میلوف کہتے ہیں کہ انہی مغربی پابندیوں کے باعث روس میں نئی سرمایہ کاری کے لیے مالیاتی وسائل کی فراہمی انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔ میلوف کہتے ہیں، ’’مغربی پابندیوں کی وجہ سے ہمارے بینک اور کاروباری ادارے اپنے لیے اس امکان سے محروم ہو گئے ہیں کہ بیرون ملک سے قرضوں کے طور پر رقوم ادھار لے سکیں۔‘‘
ولادیمیر میلوف نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’ان پابندیوں ہی کی وجہ سے روسی اداروں کے لیے قرضوں کا حصول صرف یورپ ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشکل ہو چکا ہے۔ اب روسی اداروں کو قرضوں کی فراہمی سے انکار صرف مغربی دنیا ہی کی طرف سے نہیں کیا جا رہا بلکہ چین تک بھی ہمیں کوئی قرضے نہیں دے رہا۔‘‘
پچھلی ایک دہائی میں روسی معیشت میں ترقی کی بنیاد یہی قرضے بنے تھے۔ اب لیکن اقتصادی پابندیوں کے وجہ سے ان قرضوں کی مجموعی مالیت 700 ارب ڈالر سے کم ہو کر 470 ارب امریکی ڈالر کے برابر رہ گئی ہے۔ اس کا ایک براہ راست نتیجہ یہ بھی نکلا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روسی کرنسی روبل کی قدر میں سرمائے کی عدم دستیابی کے باعث قریب نصف کی کمی ہو چکی ہے۔
اس تناظر میں عالمی بینک کا اندازہ یہ ہے کہ روس میں، جس کی مجموعی آبادی 140 ملین کے قریب ہے، غربت کے شکار شہریوں کی تعداد اسی سال بڑھ کر 20 ملین سے زائد ہو جائے گی۔ روس میں غربت کے شکار شہریوں کا یہ تناسب گزشتہ نو برسوں میں اپنی بلند ترین سطح پر ہو گا۔