روہنگیا بحران: ’نسل کشی کی کتابی مثال‘ ہے، اقوام متحدہ
11 ستمبر 2017آج پیر 11 ستمبر کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے میانمار کی حکومت پر الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ روہنگیا اقلیت پر منظم انداز میں حملوں میں ملوث ہے۔ ان کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسلی تطہیر جاری ہے۔ رعد الحسین نے انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا، ’’ینگون حکومت نے انسانی حقوق کے تفتیش کاروں کو رسائی دینے سے انکار کر دیا ہے اور اسی وجہ سے حالات کا درست جائزہ نہیں لیا جا سکا ہے۔ تاہم صورتحال کو ایک ایسی مثال قرار دیا جا سکتا ہے، جس کی مثال صرف کتابوں میں ملتی ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے ایک خط کے ذریعے اس بحران کا پر امن حل تلاش کرنے کا کہا ہے۔ میانمار میں بھی بدھ مت کے پیروکار اکثریت میں ہیں۔
کیا آنگ سان سوچی سے نوبل امن انعام واپس لے لینا چاہیے ؟
سوچی نے خاموشی توڑ دی’’سب جھوٹ کا پلندہ ہے‘‘
روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے اور ینگون حکومت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔
میانمار میں روہنگیا کے خلاف پچیس اگست سے شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد سے نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دوران ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں زیادہ تر روہنگیا ہیں۔
راکھین ریاست میں جاری اس فوجی کارروائی کی وجہ سے ستائیس ہزار کے لگ بھگ بدھ بھکشو اور ہندو بھی نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔