روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔