’روہنگیا مسلمانوں کی مدد‘: القاعدہ میانمار میں حملوں کی حامی
3 ستمبر 2017دبئی سے اتوار تین ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مختلف دہشت گرد اور شدت پسند تنظیموں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے امریکی مانیٹرنگ سینٹر ’سائٹ‘ SITE کے مطابق یمنی القاعدہ کے ایک مرکزی رہنما نے اپنے ایک تازہ ویڈیو پیغام میں اس نیٹ ورک کے شدت پسندوں سے کہا ہے کہ وہ میانمار میں ’روہنگیا مسلم اقلیتی باشندوں کی مدد کرتے ہوئے وہاں حکام پر حملے کریں‘۔
روہنگیا اکثریتی علاقے، ڈھائی ہزار سے زائد گھر جلا دیے گئے
میانمار ميں کريک ڈاؤن جاری، کم از کم چار سو روہنگيا مسلمان ہلاک
تین کشتیاں ڈوبنے سے 15 بچوں سمیت 26 روہنگیا مسلمان ہلاک
میانمار جنوب مشرقی ایشیا کا ایک ایسا ملک ہے، جہاں قریب 1.1 ملین روہنگیا مسلم اقلیتی باشندوں کی زیادہ تر تعداد ریاست راکھین میں مقیم ہے۔ لیکن ان مسلمانوں کو، جنہیں عشروں سے ان کی مبینہ غیر قانونی حیثیت کی وجہ سے ’بے وطن‘ بھی قرار دیا جاتا ہے، میانمار میں گزشتہ چند برسوں سے کافی برے حالات کا سامنا ہے۔
ابھی گزشتہ چند دنوں کے دوران بھی میانمار کی ریاست راکھین میں کئی مسلح حملے کیے گئے تھے، جن میں محتاط اندازوں کے مطابق بھی قریب 400 افراد مارے گئے تھے اور ڈھائی ہزار سے زائد گھر جلا دیے گئے تھے۔ روہنگیا مسلمانوں کا الزام ہے کہ میانمار حکومت اپنی سکیورٹی فورسز کے ذریعے اور مقامی بودھ آبادی کی مدد سے انہیں جبر، بے دخلی اور خونریزی کا نشانہ بنا رہی ہے تاکہ وہ میانمار میں باقی ہی نہ رہیں۔
بنگلہ دیش روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دے، اقوام متحدہ
روہنگیا: ’فوج نے ایک چھوٹے سے بچے کو بھی نہیں بخشا‘
اس کے برعکس میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ روہنگیا اقلیتی باشندوں میں بہت سے شدت پسند بھی پائے جاتے ہیں اور وہ انہی کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ راکھین میں گزشتہ چند دنوں کے دوران جو قریب ڈھائی ہزار گھر جلا دیے گئے، وہ بھی روہنگیا شدت پسندوں کی کارروائی تھی، جن کی گرفتاری میں مدد کے لیے باقی ماندہ روہنگیا باشندوں کو حکام سے تعاون کرنا چاہیے۔
راکھین سے پچھلے چند روز کے دوران ایک بار پھر ہزار ہا روہنگیا باشندے اپنی جانیں بچانے کے لیے بنگلہ دیش چلے گئے، جس کی بین الاقوامی تنظیموں اور بنگلہ دیشی حکومت نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ ان اقلیتی مسلم باشندوں کا کہنا ہے کہ میانمار میں حکومت ان کے گھروں اور دیہات پر حملے کر رہی ہے۔
’سائٹ‘ کے مطابق اس تناظر میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی الملاحم میڈیا فاؤنڈیشن کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں جزیرہ نما عرب میں القاعدہ یا AQAP کے رہنما خالد باطرفی نے کہا ہے کہ برصغیر میں القاعدہ یا AQIS کومیانمار میں ریاستی حکام پر حملے کرنا چاہییں۔
میانمار: دو روز میں 104 ہلاکتیں
روہنگیا حملہ آوروں کے مبینہ ’منظم حملوں‘ میں 71 ہلاکتیں
روہنگیا مسلمانوں پر ’منظم مظالم‘ نہیں کیے گئے، حکومتی رپورٹ
روئٹرز کے مطابق باطرفی نے اس پیغام میں کہا کہ برما (میانمار) میں (روہنگیا باشندوں پر) جو حملے کیے جا رہے ہیں، انہیں ناکام بنانے کی ہر کوشش کی جانا چاہیے اور جوابی حملے کیے جائیں۔‘‘ باطرفی کو 2015 میں القاعدہ کے شدت پسندوں نے اس وقت ایک یمنی جیل سے چھڑا لیا تھا، جب انہوں نے بندرگاہی شہر المکلہ پر قبضہ کر لیا تھا۔
میانمار حکومت کے مطابق راکھین میں حال ہی میں جو قریب 2600 گھر جلا دیے گئے تھے، وہ مبینہ طور پر روہنگیا شدت پسندوں کی ممنوعہ تنظیم اراکان روہنگیا سالویشن آرمی یا ARSA کی کارروائی تھی۔ یہ شدت پسند گروپ ان حالیہ مسلح حملوں کی ذمے داری قبول کر چکا ہے، جن میں گزشتہ ہفتے سرکاری دستوں کی کئی چیک پوسٹوں پر منظم انداز میں متعدد حملے کیے گئے تھے۔ اس کے بعد ہونے والی خونریزی اور جھڑپیں ملکی فوج کی بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی کا حصہ تھیں۔
اسلامی تعاون تنظیم روہنگیا مہاجرین کے مسائل کے حل کی تگ و دو میں
اقوام متحدہ کی تفتیش سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں، میانمار
’بودھ دہشت گردی کی علامت‘ کا راکھین کا اشتعال انگیز دورہ
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو مقامی شہریت نہیں دی جاتی اور حکومت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق حالیہ دنوں میں مزید قریب 59 ہزار روہنگیا باشندے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔