1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا کے خلاف بدھ بھکشوؤں کا مظاہرہ

عاطف توقیر ایسوسی ایٹڈ پریس
22 اکتوبر 2017

اتوار کے روز ہزاروں سخت گیر نظریات کے حامل بدھ بھکشوؤں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظاہرے میں مطالبہ کیا کہ علاقہ چھوڑ کر جانے والے روہنگیا کو قبول نہ کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/2mJJG
Proteste von Mönchen in Myanmar
تصویر: dapd

ہزاروں سخت گیر بدھ بھکشوؤں نے یہ مظاہرہ شورش زدہ ریاست راکھین کے دارالحکومت سِتوے میں کیا۔ اس ریاست میں اگست کی 25 تاریخ سے سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک قریب چھ لاکھ روہنگیا باشندے ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ مہاجرین بنگلہ دیش میں خیمہ بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ میانمار کی رہنما آن سانگ سوچی نے کہا تھا کہ ملک چھوڑ کر نقل مکانی کرنے والے روہنگیا باشندوں کو چھان بین کے عمل کے بعد وطن واپس آنے دیا جائے گا۔

ہزاروں مزید روہنگیا بنگلہ دیش کے راستے میں ہیں، اقوام متحدہ

روہنگیا بچے ایک ’جہنم‘ سے گزر رہے ہیں، اقوام متحدہ

میانمار روہنگیا مسلمانوں کو مظالم سے بچانے میں ناکام رہا، اقوام متحدہ

اتوار کے روز تاہم اس مظاہرے میں بدھ بھکشوؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان روہنگیا افراد کو واپس لوٹنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ریاستی دارالحکومت سِتوے میں بھی روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی، تاہم سن 2012ء میں ہونے والے فسادات کے بعد ان میں سے زیادہ تر یہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

بدھ بھکشوؤں کے اس مظاہرے کے منتظم آنگ ہٹے نے کہا کہ میانمار کے کسی بھی شہری کو وطن واپس لوٹنے کی اجازت ہونا چاہیے، مگر اگر ان افراد کے پاس میانمار کی شہریت نہیں ہے، تو انہیں واپس لانا شورش زدہ علاقے کو استحکام دینے کی کسی بھی حکومتی کوشش کو ناکام بنا دے گا۔

روہنگیا مسلمانوں کے لیے بھارتی زمین بھی تنگ ہوتی ہوئی

یہ بات اہم ہے کہ روہنگیا باشندوں کے پاس میانمار کی شہریت نہیں ہے اور میانمار میں اس برادری کو ملک میں غیرقانونی طور پر آباد ’بنگالی مہاجرین‘ قرار دیا جاتا ہے۔ شہریت نہ ہونے ہی کی وجہ سے یہ برادری بنیادی شہری حقوق سے محروم ہے۔

راکھین میں تشدد کی تازہ لہر اور لاکھوں افراد کی ہجرت کا آغاز روہنگیا عسکریت پسندوں کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر کیے گئے منظم حملوں کے بعد عسکری آپریشن کے تناظر میں شروع ہوا تھا۔ تاہم بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا افراد کا الزام ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز ان کے خلاف قتل، تشدد، جنسی زیادتیوں اور گھر جلانے جیسے واقعات میں ملوث ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی الزام عائد کیا جا چکا ہے کہ راکھین میں میانمار کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں ’نسل کشی‘ کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔