روہنگیا کے مصائب کا ایک سال
24 اگست 2018پچیس اگست 2017ء کو میانمار کی راکھین ریاست میں ایک ایسی فوجی کارروائی شروع ہوئی، جسے اقوام متحدہ نسلی تطہیر سے تعبیر کرتی ہے۔ اس دوران سات لاکھ سے زائد روہنگیا نے اپنے گھروں کو جلتا ہوا چھوڑ کر پیدل اور کشتیوں کے ذریعے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا رخ کیا۔ میانمار حکومت کے مطابق فوجی کارروائی روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف شروع کی گئی تھی تاہم اس دوران فوج پر تشدد ، جنسی زیادتی اور قتل کے الزامات بھی عائد کے گئے۔
روہنگیا کے حوالے سے یہ تنازعہ کئی دہائیوں پرانا ہے۔ تاہم اس مرتبہ اس بحران کی وجہ سے بنگلہ دیش پر شدید دباؤ ہے کیونکہ کوکس بازار میں تین لاکھ سے زائد روہنگیا آباد ہو چکے ہیں۔ میانمار حکومت کے مطابق وہ ان افراد کو واپس قبول کرنے پر تیار تو ہے لیکن انہیں شہریت نہیں دی جائے گی۔
میانمار انہیں غیر قانونی بنگالی مہاجرین قرار دیتا ہے۔
ایک سال گزر جانے کے بعد آج بھی روہنگیا کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ اس تناظر عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر پیٹر سلاما نے کہا کہ اس موقع پر بنگلہ دیش کی حکومت کو علاقائی اور بین الاقوامی برادری کے تعاون اور یکجہتی کی ضرورت ہے، ’’مالی امداد کے بغیر مختلف وبائی بیماریوں پر قابو پانا ممکن نہیں‘‘۔
عالمی بینک نے کوکس بازار میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔