رہائی کے بعد ’’باؤ جی خاموش اور اداس‘‘ ہیں
20 ستمبر 2018اڈیالہ جیل میں 68 دنوں کی اسیری کے بعد گزشتہ رات جب نوز شریف جاتی عمرہ پہنچے تو پہلے کی طرح ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے ان کی اہلیہ کلثوم نواز وہاں موجود نہیں تھیں۔ نواز شریف کی قید کے دوران لندن کے ایک ہستال میں کلثوم نواز کا چند دن پہلے انتقال ہو گیا تھا اور نواز شریف پیرول پر رہائی کے بعد بیگم کلثوم کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد پیر کے روز دوبارہ اڈیالہ جیل پہنچے تھے۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کے قریبی ساتھیوں نے بتایا کہ جیل سے رہائی کے بعد بھی نواز شریف زیادہ تر خاموش ہی رہے، انہوں نے کیپٹن (ر) محمد صفدر اور مریم نواز کے برعکس استقبالی کارکنوں کے نعروں کا پرجوش طریقے سے ہاتھ لہرا لہرا کر جواب بھی نہیں دیا۔ اگرچہ مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے گزشتہ رات لاہور ائیرپورٹ اور جاتی عمرہ میں استقبالی ریلیوں کا اہتمام کیا تھا۔ جاتی عمرہ کے باہر والی سڑک پر تو کارکنوں نے پھولوں کی پتیاں بچھا کر بڑے بڑے حروف میں خوش آمدید بھی لکھا۔
پاکستان کے کئی شہروں میں مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی طرف سے مٹھائیاں بانٹنے، شکرانے کے نوافل ادا کرنے، خوشی سے بھنگڑا ڈالنے کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں لیکن نواز شریف کے خاندانی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جاتی عمرہ میں اس طرح کا جشن دکھائی نہیں دے رہا، وہاں نواز شریف کی رہائی کی خوشیوں پر بیگم کلثوم نواز کی وفات کا سوگ حاوی ہے۔
جاتی عمرہ میں موجود شریف فیملی کے ایک ذریعے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف جاتی عمرہ پہنچنے کے بعد بیگم کلثوم نواز کی قبر پر گئے، وہاں ان کی مغفرت کی دعا کی اور کچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔ نواز شریف نے زیادہ تر وقت اپنی والدہ اور گھر کے افراد کے ساتھ ہی گزارا۔ اسی دوران انہوں نے ویڈیو لنک پر اپنے بیٹوں حسن اور حسین کے ساتھ بھی تفصیلی بات چیت بھی کی۔
جمعرات کے روز بھی نواز شریف کے پروگرام میں زیادہ تر نجی مصروفیات ہی رکھی گئی ہیں۔ جمعرات کو نواز شریف کے پروگرام میں ان کی اپنے رشتے داروں سے ملاقات، مسلم لیگ نون کے قریبی رہنماوں سے مشاورت اور قانونی ماہرین سے ملاقات شامل ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے ڈاکٹروں کا ایک پینل ان کے طبی معائنے کے لیے ان کے ہاں وزٹ بھی کرے گا۔
نواز شریف نے اپنی رہائی کے بعد اپنے مختصر بیان میں کہا ہے کہ ’’میرا ضمیر مطمئن ہے، میں نے کوئی گناہ نہیں کیا اس لیے مجھے یقین تھا کہ اللہ مجھے انصاف دے گا۔‘‘ مولانا فضل الرحمان ، محمود اچکزئی سمیت پاکستان کے متعدد سیاسی لیڈروں نے شہباز شریف کو فون کر کے نواز شریف کی رہائی پر مبارکباد دی ہے۔
مسلم لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک صحافی ذیشان بخش کا خیال ہے کہ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کی رہائی نے مسلم لیگ نون کے پژمردہ کارکنوں کو نیا جوش اور ولولہ دیا ہے لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نون کسی بھرپور جشن یا احتجاج کی طرف جاتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
ان کے بقول اس کی وجہ غالبا ایک تو یہ کہ نواز شریف کی سزا معطل ہوئی ہے، منسوخ نہیں ہوئی اور ان کے خلاف ابھی دو ریفرنسوں کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ دوسرے محرم الحرام کی وجہ سے بھی جشن کی کسی تقریب کا انعقاد مناسب نہیں ہے اور ان کے بقول اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ شریف فیملی کے دلوں میں کلثوم نواز کی موت کا دکھ ابھی تازہ ہے۔ نواز شریف بھی ابھی تک غم کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔
مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف ’جھوٹے مقدمے‘ بنائے گئے اور ان مقدمات کا مقصد پری پول دھاندلی کرکے نواز شریف کو الیکشن سے باہر رکھ کر عمران خان کی کامیابی کی راہ ہموار کرنا تھا۔
دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نواز شریف کی رہائی پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ شریف خاندان ابھی بھی ثابت نہیں کر سکا کہ ان کی ملکیت میں اربوں روپے کہاں سے آئے؟ انہوں نے کہا کہ وہ عدالت کے دوسرے فیصلوں کی طرح اس کا بھی احترام کرتے ہیں، ’’ ہم عدالتوں کا مکمل احترام کرتے ہیں، پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں۔‘‘ وزیر اطلاعات کا کہنا تھاکہ حکومت اور عوام کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں، قوم چاہتی ہے کہ لوٹی گئی دولت واپس آئے۔
دریں اثناء پاکستان میں احتساب کے ادارے نیب نے نواز شریف کی رہائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کے ایک قومی روزنامے سے وابستہ سینئر کلم نگار خالد رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف کی رہائی اگر قومی انتخابات سے پہلے ہو جاتی تو انہیں کافی سیاسی فائدہ ہو سکتا تھا لیکن اب اس رہائی سے اگر ضمنی انتخابات میں انہیں کچھ کامیابی مل بھی جاتی ہے تو بھی اس سے قومی اور صوبائی سطح پر بن جانے والے حکومتی سیٹ اپ کو بدلا نہیں جا سکتا۔
خالد رسول کا ماننا ہے کہ اس رہائی سے البتہ نواز شریف کے اس بیانیے کو بہت تقویت ملے گی کہ ان پر سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنائے گئے ہیں اور یہ مقدمات ٹھوس حقائق کی بجائے مفروضوں پر بنا دیے گئے تھے۔ ان کے مطابق اس رہائی نے نیب کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔