1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریاست چھینی ہوئی زندگیا ں لوٹا دے، سمی دین بلوچ

1 جون 2024

انسانی حقوق کی بلوچ کارکن سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ فرنٹ لائن ڈیفنڈر ایوارڈ سے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ سمی بلوچ کے مطابق تمام مسائل کا حل قانون کی حکمرانی اور احتساب کے عمل سے جڑا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/4gWrd
سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ اس ایوارڈ سے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے
سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ اس ایوارڈ سے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہےتصویر: Private

وہ اس وقت صرف دس برس کی تھیں، جب سمی دین بلوچ کو 2009ء میں پہلی مرتبہ اپنے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کے لیے ایک احتجاج کا حصہ بننا پڑا۔ اس کے بعد آنے والے پندرہ سالوں کے دوران انہوں نے بلوچ عوام کے حقوق کی وکالت خاص طور پر بلوچستان سے اپنے والد اور دیگر لاپتا افراد کے مقدمات کو اجاگر کرنے کے لے ہر لمحہ ایک جدوجہد میں گزارا۔

اسی لیے جب اکتیس مئ بروز جمعہ سمی بلوچ کو آئرلینڈ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم فرنٹ لائن ڈیفنڈرز کی طرف سے انسانی حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرنے کے سلسلے میں ہیومن رائٹس ڈیفنڈر کے بیش قدر ایوارڈ سے نوازا تو ان کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ کیا ان کی یہ جدوجہد کبھی نتیجہ خیز ہو پائے گی؟

سمی بلوچ کو آئرلینڈ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم فرنٹ لائن ڈیفنڈرز کی طرف  سے پرامن جدوجہد کرنے کے سلسلے میں ایوارڈ سے نوازا گیا
سمی بلوچ کو آئرلینڈ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم فرنٹ لائن ڈیفنڈرز کی طرف سے پرامن جدوجہد کرنے کے سلسلے میں ایوارڈ سے نوازا گیاتصویر: Private

ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ یقیناﹰ اس ایوارڈ کا ملنا نا صرف ان کی بلکہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ان کے ساتھ جدوجہد کرنے والے  سینکڑوں دیگر افراد کی بھی حوصلہ افزائی تھی۔ تاہم سمی کے بقول، '' یہ ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے یہی سوچ میرے ذہن پر غالب تھی کہ کیا میری اور میرے ساتھیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں میرے والد اور دوسرے لاپتا افراد کی اپنے گھروں کو صحیح سلامت واپسی ممکن ہو پائے گی؟‘‘

سمی بلوچ انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچستان سے جبری طور پر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے وقفے وقفے سے منعقد کیے جانے والے بلوچ لانگ مارچ کے مرکزی منتظمین میں سے بھی ایک ہیں۔ وہ  اس وقت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) نامی تنظیم کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔

سمی کا کہنا ہے کہ ہومن رائٹس ڈیفنڈر کا ایوارڈ ان تمام لوگوں کا ہے، جنہوں نے چلچلاتی دھوپ، جھلسا کر رکھ دینے والی گرمی، اور رگوں میں خون منجمد کر دینے والی سردی کی پرواہ کیے بغیر لاپتا بلوچوں کے لیے آواز اٹھائی اور سڑکوں پر نکلے۔  سمی 2014ء میں اپنے والد ڈاکٹر دین محمد اور دیگر لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ میں حصہ لے چکی ہیں۔

والد کی جدائی کا غم

سمی اپنے لاپتا والد کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک صاحب کردار، شفیق اور بہادر والد کی کمی نے ان سمیت ان کے پورے خاندان کو ایک مسلسل اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا،'' میں جب اپنے نامکمل خاندان کو دیکھتی ہوں تو دل غم سے بھر جاتا ہے، اپنی ماں کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ان کا اسٹیٹس کیا ہے؟ کیا وہ اب بھی سہاگن ہیں یا بیو ہ  ہیں؟  کیونکہ خاوند اگر نہ ہو تو پھر ہمارے معاشرے میں ایسے سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔‘‘

سمی بلوچ اپنے والد دین محمد بلوچ کی رہائی کے لیےایک مظاہرے میں شریک ہیں
سمی بلوچ اپنے والد دین محمد بلوچ کی رہائی کے لیےایک مظاہرے میں شریک ہیںتصویر: Urooj Jafri

سمی کا کہنا ہے کہ ان کا اپنا اسٹیٹس بھی نامعلوم ہے، ''مجھے نہیں معلوم میرے والد کہاں ہیں تو ایسے میں کیا سمجھا جائے کہ میرے سر پر والد کا سایہ برقرار ہے یا کہ میں یتیم ہوں؟‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ صورتحال صرف ان کو ان کے اہل خانہ کو ہی نہیں درپیش بلکہ وہ تمام بلوچ گھرانے اسی اذیت سے گزر رہے ہیں، جن کے پیاروں کو اغوا کر لیا گیا ہے اور وہ سالوں سے واپس نہیں لوٹ سکے۔

والد سے متعلق کسی اطلاع کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے سمی نے کہا، ''میرے والد کے بارے میں ہمارے پاس کوئی مصدقہ یا براہ راست اطلاع تو نہیں لیکن ذرائع اور کچھ ایسے لوگ جنہیں اغوا کے بعد رہائی نصیب ہو پائی وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے میرے والد کو دیکھا ہے، اس لیے ہمیں اب تک یہ امید ہے کہ شاید وہ کبھی ہمارے پاس لوٹ پائیں۔

ہراسانی اوردھمکیوں کا سامنا

سمی بلوچ بلوچستان میں پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے مسائل کے حل پر زور دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی اور خاص طور پر ریاستی اہلکاروں کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بندوق کے زور پر لوگوں کو اٹھا لے جائیں اور پھر ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکے۔

  سمی بلوچ کا کہنا ہے وہ ابھی تک اپنی جدوجہد کے نیتجے خیز نا ہو سکنے سے مایوس تو ہیں لیکن وہ اسے ترک نہیں کریں گی
سمی بلوچ کا کہنا ہے وہ ابھی تک اپنی جدوجہد کے نیتجے خیز نا ہو سکنے سے مایوس تو ہیں لیکن وہ اسے ترک نہیں کریں گیتصویر: Private

سمی کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے کام کی وجہ سے اکثر دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں اکثر لاپتا افراد کی گلی سڑی لاشوں کی شناخت بھی کرنی پڑتی ہے اور جب بھی ایسا کوئی موقع آتا ہے تو ہر لمحہ یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کیا یہ مسخ شدہ لاش ہمارے کسی قریبی یا عزیز کی تو نہیں۔‘‘

ان کے بقول دار اصل یہ لاشیں بھی ایک طرح کا پیغام ہوتی ہیں کہ کوئی پوچھنے والا نہیں اور جب چاہے جیسے چاہے انسانی جان کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کا غم اور کرب اتنا زیادہ ہے کہ اس کے سامنے یہ ہراسانی اور دھمکیاں کم لگتی ہیں۔ سمی بلوچ کے مطابق انصاف کے حصول تک ان کی مزاحمتی جدوجہد جاری رہے گی۔

'ریاست چھینی ہوئی زندگیا ں لوٹا دے‘

انسانی حقوق کی اس بلوچ کارکن کو فی الحال اپنی جدوجہد کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سمی بلوچ کا کہنا تھا، ''تصور کریں کہ ایک بچی جب صرف دس سال کی تھی تو وہ اپنے والد کی بازیابی کے لیے باہر نکلی اور پھر پہلے اس کا بچپن اور اب جوانی سڑکوں اور احتجاجوں کی نظر ہو رہا ہے اور نا جانے ایسے کتنے بچے اور بچیاں صرف بلوچستان میں ہیں، جن سے ان کا بچپن اور جوانیاں چھین لی گئیں۔‘‘

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کے شرکا
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کے شرکا تصویر: DW/Shadi Khan Saif

سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد اگر کبھی کامیابی سے ہمکنار ہو بھی گئی اور لاپتا افراد واپس لوٹ بھی آئے تو کیا ریاست انہیں اور ان جیسے سیکنٹروں دیگر افراد کو ان کی زندگیوں کے چھینے گئے لمحات واپس لوٹا سکے گی؟ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے، جو سالہاسال سے موجود ہے لیکن اس کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا بلکہ ابھی تک لوگوں کو لاپتہ کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

قانونی کی حکمرانی اور احتساب

سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ ناصرف لاپتا افراد بلکہ پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والی دیگر بہت سی محرومیوں اور مسائل کا حل ملک میں قانون کی حکمرانی اور احتساب کے ایک مضبوط عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' جب سب کو معلوم ہو گا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور اگر کسی نے کوئی نا انصافی کی ہے، تو وہ قانون کی پکڑ سے نہیں بچ سکے گا، تو پھر آپ دیکھیں گے کہ حالات کیسے بدلتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ موجودہ لاقانونیت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون کبھی بھی ملک سے بد امنی اور عدم استحکام کے خاتمے کا باعث نہیں بن سکتا ہے۔

ہمارے پیارے مجرم ہیں تو عدالت میں لے جائیں، بلوچ مظاہرین