ریاست چھینی ہوئی زندگیا ں لوٹا دے، سمی دین بلوچ
1 جون 2024وہ اس وقت صرف دس برس کی تھیں، جب سمی دین بلوچ کو 2009ء میں پہلی مرتبہ اپنے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کے لیے ایک احتجاج کا حصہ بننا پڑا۔ اس کے بعد آنے والے پندرہ سالوں کے دوران انہوں نے بلوچ عوام کے حقوق کی وکالت خاص طور پر بلوچستان سے اپنے والد اور دیگر لاپتا افراد کے مقدمات کو اجاگر کرنے کے لے ہر لمحہ ایک جدوجہد میں گزارا۔
اسی لیے جب اکتیس مئ بروز جمعہ سمی بلوچ کو آئرلینڈ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم فرنٹ لائن ڈیفنڈرز کی طرف سے انسانی حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرنے کے سلسلے میں ہیومن رائٹس ڈیفنڈر کے بیش قدر ایوارڈ سے نوازا تو ان کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ کیا ان کی یہ جدوجہد کبھی نتیجہ خیز ہو پائے گی؟
ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ یقیناﹰ اس ایوارڈ کا ملنا نا صرف ان کی بلکہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ان کے ساتھ جدوجہد کرنے والے سینکڑوں دیگر افراد کی بھی حوصلہ افزائی تھی۔ تاہم سمی کے بقول، '' یہ ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے یہی سوچ میرے ذہن پر غالب تھی کہ کیا میری اور میرے ساتھیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں میرے والد اور دوسرے لاپتا افراد کی اپنے گھروں کو صحیح سلامت واپسی ممکن ہو پائے گی؟‘‘
سمی بلوچ انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچستان سے جبری طور پر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے وقفے وقفے سے منعقد کیے جانے والے بلوچ لانگ مارچ کے مرکزی منتظمین میں سے بھی ایک ہیں۔ وہ اس وقت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) نامی تنظیم کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔
سمی کا کہنا ہے کہ ہومن رائٹس ڈیفنڈر کا ایوارڈ ان تمام لوگوں کا ہے، جنہوں نے چلچلاتی دھوپ، جھلسا کر رکھ دینے والی گرمی، اور رگوں میں خون منجمد کر دینے والی سردی کی پرواہ کیے بغیر لاپتا بلوچوں کے لیے آواز اٹھائی اور سڑکوں پر نکلے۔ سمی 2014ء میں اپنے والد ڈاکٹر دین محمد اور دیگر لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ میں حصہ لے چکی ہیں۔
والد کی جدائی کا غم
سمی اپنے لاپتا والد کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک صاحب کردار، شفیق اور بہادر والد کی کمی نے ان سمیت ان کے پورے خاندان کو ایک مسلسل اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا،'' میں جب اپنے نامکمل خاندان کو دیکھتی ہوں تو دل غم سے بھر جاتا ہے، اپنی ماں کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ان کا اسٹیٹس کیا ہے؟ کیا وہ اب بھی سہاگن ہیں یا بیو ہ ہیں؟ کیونکہ خاوند اگر نہ ہو تو پھر ہمارے معاشرے میں ایسے سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔‘‘
سمی کا کہنا ہے کہ ان کا اپنا اسٹیٹس بھی نامعلوم ہے، ''مجھے نہیں معلوم میرے والد کہاں ہیں تو ایسے میں کیا سمجھا جائے کہ میرے سر پر والد کا سایہ برقرار ہے یا کہ میں یتیم ہوں؟‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ صورتحال صرف ان کو ان کے اہل خانہ کو ہی نہیں درپیش بلکہ وہ تمام بلوچ گھرانے اسی اذیت سے گزر رہے ہیں، جن کے پیاروں کو اغوا کر لیا گیا ہے اور وہ سالوں سے واپس نہیں لوٹ سکے۔
والد سے متعلق کسی اطلاع کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے سمی نے کہا، ''میرے والد کے بارے میں ہمارے پاس کوئی مصدقہ یا براہ راست اطلاع تو نہیں لیکن ذرائع اور کچھ ایسے لوگ جنہیں اغوا کے بعد رہائی نصیب ہو پائی وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے میرے والد کو دیکھا ہے، اس لیے ہمیں اب تک یہ امید ہے کہ شاید وہ کبھی ہمارے پاس لوٹ پائیں۔
ہراسانی اوردھمکیوں کا سامنا
سمی بلوچ بلوچستان میں پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے مسائل کے حل پر زور دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی اور خاص طور پر ریاستی اہلکاروں کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بندوق کے زور پر لوگوں کو اٹھا لے جائیں اور پھر ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکے۔
سمی کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے کام کی وجہ سے اکثر دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں اکثر لاپتا افراد کی گلی سڑی لاشوں کی شناخت بھی کرنی پڑتی ہے اور جب بھی ایسا کوئی موقع آتا ہے تو ہر لمحہ یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کیا یہ مسخ شدہ لاش ہمارے کسی قریبی یا عزیز کی تو نہیں۔‘‘
ان کے بقول دار اصل یہ لاشیں بھی ایک طرح کا پیغام ہوتی ہیں کہ کوئی پوچھنے والا نہیں اور جب چاہے جیسے چاہے انسانی جان کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کا غم اور کرب اتنا زیادہ ہے کہ اس کے سامنے یہ ہراسانی اور دھمکیاں کم لگتی ہیں۔ سمی بلوچ کے مطابق انصاف کے حصول تک ان کی مزاحمتی جدوجہد جاری رہے گی۔
'ریاست چھینی ہوئی زندگیا ں لوٹا دے‘
انسانی حقوق کی اس بلوچ کارکن کو فی الحال اپنی جدوجہد کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سمی بلوچ کا کہنا تھا، ''تصور کریں کہ ایک بچی جب صرف دس سال کی تھی تو وہ اپنے والد کی بازیابی کے لیے باہر نکلی اور پھر پہلے اس کا بچپن اور اب جوانی سڑکوں اور احتجاجوں کی نظر ہو رہا ہے اور نا جانے ایسے کتنے بچے اور بچیاں صرف بلوچستان میں ہیں، جن سے ان کا بچپن اور جوانیاں چھین لی گئیں۔‘‘
سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد اگر کبھی کامیابی سے ہمکنار ہو بھی گئی اور لاپتا افراد واپس لوٹ بھی آئے تو کیا ریاست انہیں اور ان جیسے سیکنٹروں دیگر افراد کو ان کی زندگیوں کے چھینے گئے لمحات واپس لوٹا سکے گی؟ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے، جو سالہاسال سے موجود ہے لیکن اس کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا بلکہ ابھی تک لوگوں کو لاپتہ کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
قانونی کی حکمرانی اور احتساب
سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ ناصرف لاپتا افراد بلکہ پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والی دیگر بہت سی محرومیوں اور مسائل کا حل ملک میں قانون کی حکمرانی اور احتساب کے ایک مضبوط عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' جب سب کو معلوم ہو گا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور اگر کسی نے کوئی نا انصافی کی ہے، تو وہ قانون کی پکڑ سے نہیں بچ سکے گا، تو پھر آپ دیکھیں گے کہ حالات کیسے بدلتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ موجودہ لاقانونیت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون کبھی بھی ملک سے بد امنی اور عدم استحکام کے خاتمے کا باعث نہیں بن سکتا ہے۔