ریاض الرحمان ساغر: ایک آواز جو خاموش ہو گئی
6 جون 2013ریاض الرحمان ساغر 1941ء میں بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہوئے تھے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان آ کر آباد ہو گئے تھے۔ کم عمری میں ہجرت کے غم اور پھر ایک نئے دیس میں آ بسنے کی مسرت کے ملے جلے احساسات نے ان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
ریاض الرحمان ساغر کی فنی زندگی کے حوالے سے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے معروف شاعر، نغمہ نگار اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد کا کہنا تھا، ’’ریاض الرحمان ساغر کا زیادہ تعلق فلمی دنیا اور فلمی صحافت سے رہا، انہوں نے بہت سی فلموں کے لیے گیت نگاری بھی کی۔
اس کے علاوہ منظوم کالم نگاری میں بھی ان کو خصوصی کمال حاصل تھا۔ روزنامہ نوائے وقت میں ان کا منظوم کالم ’عرض کیا ہے‘ ایک طویل عرصے تک چھپتا رہا‘‘۔ انہوں نے اپنے چین کے سفر کو بھی منظوم انداز میں قلمبند کیا تھا۔
دو ہزار سے زائد نغمات کے خالق اس شاعر کے کلام نے بہت سی فلموں کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ امجد اسلام امجد کے مطابق فلمی شاعری میں وہ قتیل شفائی کے شاگرد تھے، ’’انہوں نے باقاعدہ طور پر زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن جتنی بھی تعلیم حاصل کی، اس کا خوب استعمال کیا‘‘۔
انہوں نے سن 1967 میں پاکستانی فلم ’عالیہ‘ کے گیت لکھے، جس کے بعد فلمی گیت نگاری سے انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ چند مشہور فلمیں، جن کے لیے انہوں نے گیت لکھے، ان میں ’کبھی تو نظر ملاؤ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتہ ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ شامل ہیں۔
امجد اسلام امجد کے مطابق ریاض الرحمان ساغر کا شمار ستر کی دہائی کے بعد کے ایسے معروف فلمی شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے فلمی صنعت کے زوال کے باوجود اچھی شاعری کی تخلیق جاری رکھی۔ امجد کے مطابق ریاض الرحمان ساغر کا شمار اردو کے مسعود انور اور احمد عقیل روبی جیسے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔
فلموں کے ساتھ ساتھ کئی مشہور گلوکار بھی ایسے ہیں جن کو ساغر کے لکھے ہوئے گیتوں سے خوب شہرت ملی۔ ان کا لکھا ہوا گانا ’دوپٹہ میرا مل مل دا‘ اور ’یاد سجن دی آئی‘ حدیقہ کیانی کی پہچان بن گئے ۔ آشا بھوسلے اور عدنان سمیع کا مشہور زمانہ دوگانا ’کبھی تو نظر ملاؤ‘ بھی انہی کا لکھا ہوا تھا۔
فریحہ پرویز کی سن 2001 میں ریلیز ہونے والی البم ’او ویلا یاد کر‘ کے تمام دس گیت بھی ریاض الرحمان ساغر نے ہی تحریر کیے تھے۔ ان کا تازہ مقبول ترین گیت ’میں تینوں سمجھانواں کیہ‘ فلم ’ورثہ‘ کے لیے تھا جسے راحت فتح علی خان نے گایا۔
ریاض الرحمان ساغر طویل عرصے تک اردو اخبار ’نوائے وقت‘ کے پہلے شوبز رپورٹر اور پھر شوبز ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ پاکستان فلم سنسر بورڈ کے رکن بھی رہے تھے۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات ’وہ کیا دن تھے‘ کے نام سے مرتب کی۔ ان کے دو سفر نامے ’کیمرہ، قلم اور دنیا‘ اور ’لاہور تا بمبئی براستہ دہلی‘ کے نام سے شائع ہوئے۔
ان کی دیگر تخلیقات میں ’آنگن آنگن تارے‘، ’عرض کیا ہے‘ اور ’چاند جھروکے میں‘ شامل ہیں۔ انہیں ان کی فلمی شاعری کی وجہ سے کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔
ساغر کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے اور کچھ عرصے سے ہسپتال میں زیر علاج تھے، جہاں یکم جون ہفتےکی شب ان کا انتقال ہوگیا۔ انہیں دو جون اتوار کے روز لاہور میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ ریاض الرحمان ساغر آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے سدا بہار گیت دنیا بھر میں ان کے بےشمار مداحوں کو ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
رپورٹ: زبیر بشیر
ادارت: مقبول ملک