1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ریاض اور انقرہ دونوں ہی پاکستان کی حمایت چاہتے ہیں‘

عبدالستار، اسلام آباد
13 فروری 2020

ترک صدر رجب طیب ایردوآن دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے ہیں، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور دفاعی تعاون کو مزید مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔

https://p.dw.com/p/3XjXN
Pakistan Islamabad Besuch Erdogan Präsident Türkei
تصویر: Reuters/Prime Minister Office

پاکستان اور ترکی کے ن لیگ کی حکومت کے دوران تعلقات انتہائی خوشگوار تھے۔ ترک کمپنیوں نے اس دوران پاکستان میں کچھ ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے بھی حاصل کیے۔ اس کے علاوہ نواز حکومت نے ایردوآن مخالف فتح اللہ گولن نیٹ ورک کو پاکستان میں ختم بھی کیا اور اس نیٹ ورک کے اسکولوں کو ترک حکومت کے ایک ادارے کے زیر انتظام لایا گیا۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ شریف فیملی نے طیب ایردوآن کی فیملی کے ساتھ ذاتی طور پر بھی بہتر تعلقات قائم کیے اور کچھ برسوں پہلے جب وہاں فوجی بغاوت ہوئی تو ن لیگ کی حکومت نے کھل کر ایردوآن کی حمایت کی۔ لیکن عام تاثر یہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں رہی۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک عجیب سی صورت حال اس وقت بھی پیدا ہوئی، جب کچھ ہفتوں قبل پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کوالا لپمور کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی اور طیب ایردوآن نے اس بات کا انکشاف کیا کہ پاکستان کی عدم شرکت سعودی دباؤ کی وجہ سے تھی۔

ترک کمپنیاں پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر عدالت میں بھی گئیں، جہاں اسلام آباد پر مختلف تجارتی معاہدوں کی خلاف ورزیوں پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ تاہم ترک حکومت نے یہ جرمانہ معاف کر دیا، جس کا پاکستان میں بہت خیر مقدم کیا گیا۔ اس کے علاوہ کشمیر پر بھی ترکی کی پالیسی کو اسلام آباد میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

Pakistan Islamabad Besuch Erdogan Präsident Türkei
تصویر: Reuters/Prime Minister Office

یہی وجہ ہے کہ ترک صد کی آمد سے پہلے اسلام آباد کی کئی اہم شاہراؤں پر ان کی اور وزیر اعظم عمران خان کی تصاویر کو آویزاں کیا گیا اور ایئر پورٹ کے راستے میں کئی خیر مقدمی بینرز بھی لگائے گئے۔ حکومتی ذرائع کا دعوی ہے کہ ترک صدر کی آمد سے پہلے ترکی کے مختلف وفود پہلے ہی پاکستان پہنچ چکے تھے، جن میں کچھ نے آج اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ اجلاس بھی منعقد کیے۔

کئی ماہرین کے خیال میں اس دورے کا ایک اہم مقصد دفاعی تعاون ہے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کے خیال میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات قریبی ہوتے جا رہے ہیں، ''پاکستان کو ترکی چار سب میرین بنا کر دے گا، جن میں دو پاکستان اور دو ترکی میں تیار ہوں گی۔ اس کے علاوہ ہم پچاس مشاق سپر طیارے دے رہے ہیں اور وہ تیس کے قریب اٹیک ہیلی کاپٹر دیں گے، جس پر پہلے امریکا این او سی نہیں دے رہا تھا لیکن اب دے گا۔‘‘

تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ دورہ ایردوآن کے اس منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ اسلامی دنیا کے رہنما بننا چاہتے ہیں اور اس ریس میں وہ ریاض کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور ترکی میں مسلم دنیا کی قیادت حاصل کرنے کے لیے سرد جنگ چل رہی ہے، ''ریاض اور انقرہ دونوں ہی پاکستان کی حمایت چاہتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کشمیر پر دو ٹوک موقف دینے کے بعد ترکی پاکستان کے زیادہ قریب ہو گیا ہے اور ممکن ہے کہ پاکستان نہ صرف شام کے مسئلے پر انقرہ کی حمایت کرے بلکہ مسلم ممالک کو درپیش دوسرے مسائل پر بھی اس کی حمایت کرِے اور اسلامی ممالک کے ایک نئے بلاک کو بنانے میں انقرہ کی مدد بھی کرے۔‘‘

Pakistan Islamabad Besuch Erdogan Präsident Türkei
تصویر: picture-alliance/AP/Presidential Press Service

ان کا کہنا تھا کہ ترکی اسلاموفوبیا کے مسئلے کو پر زور انداز میں اٹھا رہا ہے، ''جس کی وجہ سے ایردوآن کو نہ صرف مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی حمایت حاصل ہوئی ہے بلکہ پاکستان کی توجہ بھی اس نے حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ فلسطین پر ترکی کا موقف بھی اسلامی دنیا کے عوام کی خواہشات کا عکاس ہے۔ ان اقدامات سے واضح ہے کہ ترکی مسلم دنیا کی قیادت ریاض سے لینا چاہتا ہے، جس کے لیے اسے پاکستان سمیت مختلف ممالک کی ضرورت ہے۔‘‘

 مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ ترکی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک قوم کے بجائے پوری امت مسلمہ کے بارے میں سوچتا ہے، '' کشمیر اور فلسطین پر ترکی کا جو موقف ہے، وہ انتہائی مثبت ہے اور اگر پاکستان کے پاس ترکی یا کسی اور ملک کے درمیان کوئی چوائس ہو، تو ہمیں ترکی کی حمایت کرنی چاہیے۔‘‘

طیب ایردوآن آج صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے دیے جانے والے ایک عشائیے میں شرکت کریں گے جب کہ کل وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کے علاوہ پاک ترک پاکستانی وفود کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کریں گے۔

پلاننگ کمیشن کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ترک صدر تقریبا پچاس کاروباری افراد کو لے کر آئے ہیں، تو یہ دورہ سیاسی سے زیادہ تجارتی ہے۔ ترکی خام مال کے علاوہ کئی اور اشیاء پاکستان سے خریدنا چاہتا ہے اور آزاد تجارتی معاہدے پر بھی پیش رفت چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ وہ سی پیک کا بھی حصہ بنے۔‘‘

Pakistan Islamabad Besuch Erdogan Präsident Türkei
تصویر: picture-alliance/AP/Presidential Press Service