ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے خلاف پاکستان میں مظاہرے جاری
17 مارچ 2011جمعرات کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےراجہ ارشاد کا کہنا تھا، ’’میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں اور عدالت نے قانون کے مطابق عمل کیا ہے۔‘‘ ایک سوال پر راجہ ارشاد نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اصل حقائق قوم کے سامنے آئیں گے۔ دوسری جانب عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق مقتولین فہیم اور فیضان کے ورثاء نے اسلامی شریعت میں متعین دیت کے قانون کے تحت ریمنڈ ڈیوس کو معاف کرنے کے عوض بیس کروڑ روپے وصول کیے۔
مقامی ذرائع ابلاغ پر بھی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے محرکات اور اس کے مضمرات پر بحث مباحثے کا سلسلہ چل رہا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ بعض حکومتی اراکین بھی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔ پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر سید ظفر علی شاہ نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے حقائق جاننے کے لیے سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہا :’’جس ملک کا وہ باشندہ تھا ،اس ملک کے ارباب اقتدار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تو ایک دو آنے بھی نہیں دیے۔ ہماری حکومت کو اتنی تکلیف تھی کہ اس نے پیسے بھی اپنی جیب سے دیے۔ یہ تمام معاملات مشکوک ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ قوم کو اس چیز کا نوٹس لینا چاہیے۔ کیا ہماری حکومت نے پاکستان کے شہریوں کا کاروبار کرنا ہے، ان کو بیچنا، لینا اور دینا ہے؟ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اتنی بڑی قوم کا اس طرح منہ کالا کر دے۔‘‘
مقتولین فہیم اور فیضان کے ایک وکیل ملک منصف اعوان نے الزام لگایا ہے کہ دیت کی اصل رقم ایک ارب پانچ کروڑ روپے تھی لیکن ثالثی کرانے والے کچھ لوگوں نے پچاسی کروڑ روپے آپس میں بانٹ لیے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ معاہدہ دباؤ ڈال کر زبردستی کیا گیا ہے اور میں قسم اٹھا کر کہنے کو تیار ہوں کہ جو فیضان حیدر کی بیوی ہے، زہرہ نسیم وہ کسی صورت بھی تیار نہیں ہے اور میں نے کل بھی کہا ہے کہ ایک دو روز میں وہ بھی شمائلہ کی طرح خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔‘‘
ادھر بعض حلقے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے خلاف جاری احتجاج کو غیر ضروری قرار دے رہے ہیں۔ معروف وکیل جسٹس( ر ) طارق محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں اور یہ فیصلہ بھی قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہی کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا :’’جہاں تک قانون کی بات ہے تو یہ مقدمہ ایک عدالت میں تھا۔ وہاں پر مقتولین کے لواحقین رضا مند ہو گئے۔ چاہے ان پر دباؤ ڈالا گیا ہو یا کوئی اور صورت، یا پھر انہوں نے اپنی مجبوریوں کو دیکھا ہو کہ مرنے والا تو مر گیا اور یہ کوئی ایسا ملک تو نہیں جو کہ ان کے بچوں کو پالتا ، تعلیم دیتا یا ان کے مسائل حل کرتا تو میرا خیال ہے کہ اس حد تک تو ٹھیک ہوا ہے۔‘‘
دریں اثناء وفاقی حکومت کی طرف سے ابھی تک سرکاری طور پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے متعلق کوئی موقف سامنے نہیں آیا جبکہ جمعرات کو دفتر خارجہ میں ہونے والی ہفتہ وار بریفنگ بھی ملتوی کر دی گئی۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں