ریپ کے معاملے میں بھارتی سیاست دانوں کی بے حسی؟
17 دسمبر 2021ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں ریپ اور جنسی استحصال کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ بھارتی سیاست داں اور قانون ساز مسلسل اس انتہائی اہم مسئلے پر بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
تازہ ترین واقعہ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کا ہے۔ جہاں رکن اسمبلی اور سابق اسپیکر کے آر رمیش کمار نے جمعرات کے روز ریپ کے حوالے سے متنازعہ بیان دیا۔
معاملہ کیا تھا ؟
کرناٹک اسمبلی میں جمعرات کے روزایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس کے رکن اور سابق اسپیکر رمیش کمار نے کہا،''لوگ کہتے ہیں کہ اگرریپ ہونا ناگزیر محسوس ہوتو آرام سے لیٹ جانا اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔‘‘
حیرت اور افسوس کی بات یہ تھی کہ ان کے اس بیان پر اسمبلی کے اسپیکر نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ہنستے رہے۔ دیگر اراکین بھی اس بیان پر مسکراتے اور اس سے محظوظ ہوتے دکھائی دیے۔
تاہم رمیش کمار کے اس متنازعہ بیان پر سوشل میڈیا پر کافی سخت ردعمل سامنے آیا۔ متعدد خواتین تنظیموں اور خواتین سیاست دانوں نے بھی اس پر سخت اعتراض کیا۔ جس کے بعد رمیش کمار نے جمعے کے روز اسمبلی میں اپنے بیان پر معذرت کرتے ہوئے کہا، '' میرا ارادہ خواتین کی توہین کرنا یا اس بھیانک جرم کو کم کرنا نہیں تھا۔ میں الفاظ کے غلط استعمال کے لیے تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘
کانگریس پارٹی نے بھی رمیش کمار کے بیان پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پارٹی کی یہ عمل دیرینہ روایت کے برخلاف ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے
رمیش کمار نے خواتین کے ساتھ ریپ کے حوالے سے جو بیان دیا یہ اس طرح کا کوئی پہلا بیان نہیں ہے۔ ماضی میں متعدد اہم سیاست داں خواتین اور بالخصوص ریپ کی متاثرین کے تئیں بے حسی کا اظہار کرچکے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے 'مشہور'بیان سابق وزیر دفاع اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کا ہے۔ انہوں نے ریپ کے لیے سزائے موت کی مخالفت کرتے ہوئے سن 2014 میں کہا تھا، '' لڑکے، لڑکے ہیں، غلطی ہوجاتی ہے۔ لڑکیاں پہلے دوستی کرتی ہیں۔ لڑکے لڑکی میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ اختلاف ہونے کے بعد اسے ریپ کا نام دے دیتی ہیں۔ لڑکوں سے غلطی ہوجاتی ہے۔ کیا ریپ کیس میں پھانسی دی جائے گی؟‘‘
مغربی بنگال کی وزیر اعلٰی ممتا بنرجی نے سن 2012 میں کہا تھا کہ بھارت میں ریپ کیسز میں اضافہ اس لیے ہورہا ہے کیونکہ مرد اور خواتین کے ایک دوسرے کے ساتھ آزادنہ اختلاط کا موقع کافی بڑھ گیا ہے۔ انہو ں نے کہا تھا،''پہلے اگر کوئی مرد کسی خاتون کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے دکھائی دے جاتا تھا تو اس کے سرپرست اس کی سرزنش کرتے تھے لیکن اب سب کچھ کھلے عام ہورہا ہے۔ یہ ایک اوپن مارکیٹ کی طرح ہوگیا ہے جہاں متبادل موجود ہیں۔‘‘
ہریانہ کے سابق وزیر اعلٰی اوم پرکاش چوٹالا نے لڑکیوں کو ریپ سے بچانے کے لیے ان کی شادی 16برس میں ہی کردینے کی وکالت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا،''لوگ مغلوں کی زیادتی سے اپنی بیٹیوں کو بچانے کے لیے کم عمر میں شادی کردیتے تھے، ریاست میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔‘‘ چوٹالا کے مطابق کم عمری میں شادی سے ''ریپ کے واقعات کم ہوجائیں گے۔‘‘
مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلٰی بہادر لال گوڑ نے کہا تھا،''ریپ ایک سماجی جرم ہے جو عورت اور مرد پر منحصر ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ درست ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی غلط۔ جب تک شکایت درج نہ کرائی جائے تب تک سب ٹھیک ہے۔‘‘
ریپ کے خلاف حکومتی اقدامات بے نتیجہ
بھارتی دارالحکومت دہلی میں سن 2012 میں ایک بس میں ایک خاتون کی اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد سے جنسی جرائم کے خلاف یوں تو کافی بیداری آئی ہے۔ تاہم ریپ کے واقعات کم نہیں ہورہے ہیں۔
بھارت میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے 'نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو'کے مطابق سن 2020 میں ہر روز 77 خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات درج کیے گئے۔ بیورو کے مطابق مجموعی طور پر 28 ہزار 46 ریپ کے کیسز درج کیے گئے۔
حالانکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے کیونکہ متاثرہ خواتین یا ان کے گھر والے سماجی بدنامی کے ڈر سے معاملے کو پولیس میں نہیں لے جاتے۔ بعض اوقات پولیس خود بھی ان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جب کہ کئی معاملات میں ریپ کا ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دے کر بھی متاثرہ خواتین کو قانونی چارہ جوئی کی طرف بڑھنے سے باز رکھا جاتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ریپ کی شکار 11 فیصد خواتین انتہائی پسماندہ یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے 2018ء میں اپنے ایک سروے کی رپورٹ میں بھارت کو دنیا بھر میں خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا۔