ریڈ آرمی اسکولز: حب الوطنی یا برین واشنگ؟
9 فروری 2015ان اسکولوں کے بچے نیلے آسمانی رنگ کی وردی میں ملبوس ہوتے ہیں۔ ان کی ٹوپی میں سامنے کی طرف سرخ ستارہ بنا ہوتا ہے اور یہ دیکھنے میں ایسے ہی نظر آتے ہیں، گویا یہ چین کی خانہ جنگی کے دور کے کمیونسٹ کامریڈ ہوں۔ درحقیقت یہ بچے اُس جدید مہم کا ہدف ہیں، جس میں کلاس روم کو ایک طرح سے جنگ کے میدان کی حیثیت دے دی گئی ہے اور جس کا مقصد ان بچوں کے دلوں اور ذہنوں کو بدلنا ہے۔
اسکول میں ان بچوں کو چینی انقلاب کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بچے یک آواز ہو کر ایسے ترانے گاتےہیں، جن میں کہا جاتا ہے کہ ’ہم ریڈ آرمی کے ننھے منے جنگجوؤں کی نئی نسل ہیں اور ہم بے مثال عزم کے ساتھ مارچ کرتے جا رہے ہیں‘۔
چین کی حکمران کمیونسٹ جماعت کا موقف یہ ہے کہ یہ اسکول بچوں کو ’حب الوطنی کا درس دینے‘ کی ایک زبردست مثال ہیں تاہم ناقدین ان اسکولوں کی یہ کہتے ہوئے مذمت کر رہے ہیں کہ دراصل ان میں بچوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔
ریڈ آرمی پبلک اسکولز قائم کرنے کا سلسلہ 2007ء میں شروع کیا گیا تھا۔ ایسا ہی ایک اسکول چینی صوبے سیچوان کی کاؤنٹی بیچوان میں بھی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اسی اسکول کے ایک دورے کی مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہاں جب استاد پاس سے گزرتے ہوئے بچوں کو چیئرمین ماؤ کی تصویر دکھا کر اُن سے ’دادا ماؤ‘ کے بارے میں اُن کے تاثرات کے بارے میں پوچھتا ہے تو آگے سے ایک بارہ سال بچہ ہاتھ اٹھاتا ہے اور جواب دیتا ہے:’’مَیں یہ محسوس کرتا ہوں کہ سرخ فوج عظیم ہے۔ ہمیں اُس کی انقلابی فکر کا مطالعہ کرنا ہو گا۔‘‘
یہ اسکول ’پرانے انقلابی علاقوں‘ میں قائم کیے گئے ہیں، جو ایک زمانے میں کمیونسٹ بغاوت کا گڑھ رہ چکے ہیں اور جو آج کل ملک کے غریب ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ریڈ آرمی پبلک اسکولز کے منصوبے کی وَیب سائٹ کے مطابق ان تعلیمی اداروں کا مقصد غریب ترین علاقوں میں تعلیم کی پسماندہ صورتِ حال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ’ریڈ آرمی کی فکر کو پھیلانا‘ بھی ہے۔
اس منصوبے کی وَیب سائٹ کے مطابق سابق چینی صدر دینگ سیاؤ پِنگ کی اہلیہ نے اس منصوبے کے لیے ایک لاکھ یوان (سولہ ہزار ڈالر) اور موجودہ صدر شی جن پِنگ کی والدہ نے ڈیڑھ لاکھ یوان عطیے کے طور پر دیے ہیں۔
گزشتہ چند عشروں کے دوران چین نے نوجوانوں کی نظریاتی تعلیم و تربیت پر زیادہ بھرپور توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ 1989ء میں ابدی امن کے چوک میں طلبہ کے احتجاج کو کچلنے کے بعد چین کے اُس وقت کے صدر ژیانگ زے مین نے اس امر پر زور دیا تھا کہ بنیادی تعلیم کے اداروں ، حتیٰ کہ کنڈر گارٹنز میں بھی چین کی تاریخ پر پھر سے توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔
ان اسکولز کے نصاب میں اُنیس ویں صدی میں یورپی نوآبادیاتی طاقتوں اور جاپان کی طرف سے چین پر جزوی قبضے کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے، مثلاً پرائمری اسکول کی ایک کتاب کے ایک باب کا عنوان ہے، ’توہین، جسے بھلایا نہیں جا سکتا‘۔
امریکا میں سیٹن ہال یونیورسٹی سے وابستہ چینی ماہر ژَینگ وانگ کے مطابق ’اس ساری مہم کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ اصل میں یہ کمیونسٹ پارٹی ہی تھی، جس نے ملک کو بچایا‘۔ مزید یہ کہ ’اس کا مقصد طلبہ کی تحریک اور سوویت یونین کے زوال کے بعد چین میں کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کو جائز ثابت کرنا ہے‘۔