1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریکوڈیک کیس، پاکستان اور پی آئی اے کو کتنا فائدہ ہو گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
27 مئی 2021

برٹش ورجن آئی لینڈ کی ہائی کورٹ کی طرف سے پی آئی اے کے اثاثوں کو واگزار کرنے پر پی آئی اے کے ملازمین اور حکومتی حلقے خوش ہیں۔ نئے عدالتی فیصلے کو پاکستان اور خان حکومت کی ایک ’بڑی کامیابی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3u4IC
Recodeck gold mine Balochistan Pakistan
تصویر: DW/G. Kakar

انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ کے ایوارڈ پر عملدرآمد کرانے کے لیے ٹیتھیان کمپنی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ تقریبا چھ ارب ڈالر کے اس مقدمے کی کارروائی کمپنی نے 12 جولائی 2019 میں شروع کی تھی۔ پی آئی اے کے منجمد اثاثوں میں نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل اور پیرس کے سکرائب ہوٹل شامل تھے۔

حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان اور پی آئی اے کو فائدہ ہو گا۔ اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقینا اس فیصلے سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو فائدہ ہو گا کیونکہ جائیدادیں ان کی تھی۔ متعلقہ کمپنی نے ایوارڈ کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لئے اقدامات بھی کر لیے تھے لیکن کورٹ نے فیصلہ ان کے خلاف دیا اور ان کو مقدمے کے حوالے سے ہونے والے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ چھ بلین ڈالر کا جو فیصلہ تھا، اس کے خلاف پاکستان نے پہلے ہی متعلقہ اداروں سے رجوع کیا ہوا ہے اور یہ کہ وہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔

سبق سیکھنے کی ضرورت ہے

وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کے پی آئی اے کی جائیدادیں چھڑوانے کے لیے یقینا ہماری قانونی ٹیم نے اچھا کام کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس فیصلے سے کم از کم یہ فائدہ ہو گا کہ کوئی کمپنی پاکستان کو اس طرح بلا ضرورت مقدمات میں نہیں گھسیٹے گی لیکن ہمیں بھی اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور کسی ملک سے بھی معاہدہ کرتے وقت ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس میں مصالحت کار کون ہیں؟ تنازعہ کی شکل میں پاکستان کو کون سے فورم سے رجوع کرنا پڑے گا اور آیا وہ فورم غیر جانبدار ہے بھی یا نہیں۔‘‘

ریکو ڈک ڈیل: پاکستان کی چھ ارب ڈالر جرمانے کی منسوخی کی اپیل

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان امریکا سے دو طرفہ تجارتی معاہدہ نہیں کر رہا، ''اس طرح کے معاہدے دنیا میں کئی ممالک نے امریکا سے کیے ہیں لیکن ایسے معاہدے کے نتیجے میں اگر کوئی تنازعہ پیدا ہو تو اس تنازعے کا فیصلہ امریکی عدالت کرتی ہے اور کوئی غیر جانبدار ادارہ نہیں کرتا۔ ریکوڈک معاہدے کے بعد ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی پڑیں گی اور ہمیشہ معاہدے کرتے وقت یہ بات پیش نظر رکھنی پڑے گی کہ تنازعات کی صورت میں کیا ہو گا اور مصالحت کاری کون کرے گا؟‘‘

'ہم خوش ہیں لیکن خدشات‘

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی یونین پیپلز یونٹی کے سیکریٹری جنرل سہیل مختار کا کہنا ہے کہ سارے ملازمین اس خبر پر خوش ہیں تاہم ابھی بھی کچھ خدشات ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی آئی اے کی اپنی انویسٹمنٹ کمپنی ہے، جو اس وقت اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی ہے اور یہ اس کی پراپرٹی ہے تو اس پر اس طرح قبضہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ حکومت اب بھی اس کو بیچنے کی کوشش کرے گی۔ کورونا کے بعد بھی انہوں نے بہانہ بنایا کہ کورونا کی وجہ سے بزنس بہت گر گیا ہے، اسے بیچ دینا چاہیے لیکن ہم نے اس وقت بھی مزاحمت کی تھی اور ہم آگے بھی مزاحمت کریں گے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے کو جو بھی خریدنا چاہتا ہے، وہ انہی ہوٹلوں کی وجہ سے خریدنا چاہتا ہے، ''پی آئی اے کے اپنے مالی مسائل بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے پی آئی اے کو خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ ماضی میں بھی حکومت کے کچھ لوگوں نے ان ہوٹلوں کو اپنے قریبی دوستوں کو بیچنے کی کوشش کی تھی اور اب بھی ایسے خطرات موجود ہیں۔ ان دونوں ہوٹلوں کی قیمت 2 ارب ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن پی آئی اے کے ملازمین اور ورکرز کسی بھی ایسی حکومتی کوشش پر نظر رکھیں گے اور اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔‘‘

اصل مسئلہ چھ ارب ڈالر کا

پی پی پی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری منظور کا کہنا ہے کہ حکومت خوشیاں اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے منا رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کبھی یہ حکومت غلط اعدادوشمار بتا کر اپنی نااہلی چھپاتی ہے اور اب اس کیس کو لے کر نااہلی چھپا رہی ہے۔ ان کی نااہلی کی وجہ سے چھ ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا اور پی آئی اے کے اثاثے منجمد ہوئے۔ اصل مسئلہ چھ ارب ڈالرز کا ہے۔ وہ اگر پاکستان کو ادا کرنے پڑے تو ملک کو بہت بڑی معاشی تباہی سے دوچار ہونا پڑے گا۔‘‘