زرعی زمینوں کو نگلتی ہاؤسنگ اسکیمیں، نتائج کیا نکلیں گے؟
21 مارچ 2024سپریم کورٹ نے ریوینیو ایمپلائییز کارپوریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی لمیٹڈ کے حوالے سے ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران اس سوسائٹی کے زمینی انتقال کا نوٹس لیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس انتقال کے معاملے میں بہت سے قوانین کی خلاف ورزیاں بھی کی گئیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اس ہاؤسنگ لمیٹڈ نے سن 2005 میں 2830 کینال زمین خریدی تھی، جو بعد میں اس نے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کو منتقل کر دی اور اس نے یہ زمین سن 2007 میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کو منتقل کی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اس وقت کے پنجاب کے وزیر کوآپریٹو ملک محمد انور نے اس کی مخالفت کی تھی لیکن اس وقت کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الٰہی نے اس اعتراض کو مسترد کر دیا تھا۔
زمین کا غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال
پاک پتن سے تعلق رکھنے والے زرعی امور کے ماہر عامر حیات بھنڈرا کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر زرعی زمین کو کمرشل یا رہائشی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تاہم پاک پتن سمیت کئی علاقوں میں ہر طرف ہاؤسنگ کالونیاں قائم ہو رہی ہیں۔‘‘
پاکستان: زراعت کی تباہی، ریئل اسٹیٹ کی چاندی
عامر حیات بھنڈرا کے مطابق، ''اگر اسی رفتار سے یہ کالونیاں بنتی رہی تو پاکستان کو کئی زرعی اجناس درآمد کرنا پڑیں گی اور ان کی قیمتیں بھی زیادہ ہوں گی۔‘‘
زراعت اور کسانوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اس طرح کے زمینی انتقال میں تیزی آ رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پنجاب میں گجرانوالہ اور ملتان سمیت کئی ایسے علاقے ہیں، جہاں ہاؤسنگ سوسائٹیزکا کاروبار عروج پر ہے۔‘‘
عذرا طلعت سعید کے مطابق یہ سارا عمل غذائی خوراک کی شدید قلت پیدا کرے گا اور پاکستان کا انحصار زرعی امپورٹ پر بڑھے گا۔
قیمتی زرعی اراضی پر رہائشی منصوبوں کی وبا
اسلام آباد میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ ایک ڈیویلپر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بات صحیح ہے کہ بہت ساری زرعی زمین رئیل اسٹیٹ کی نظر ہوتی جا رہی ہے۔ قانونی طور پر 650 کینال کی اگر زمین دستیاب ہو تو کوئی ہاؤسنگ کالونی بن سکتی ہے لیکن 650 کینال میں کیونکہ منافع کم ہوتا ہے، اس لیے 30 ہزار یا اس سے زیادہ کینال حاصل کی جاتی ہے۔‘‘
اس ڈیویلپر کے مطابق اسلام آباد کے ایک پروجیکٹ کے مالک نے تقریبا ڈھائی لاکھ کنال زمین لی ہے، ''جبکہ رئیل اسٹیٹ کے ایک ٹائیکون نے 75 ہزار کنال زمین لی ہے۔ بہارہ کہو اور مندرا چکوال روڈ پر کئی زرعی علاقے ہاؤسنگ اسکیموں کی نذر ہو گئے ہیں جبکہ یہی صورتحال اٹک اور راولپنڈی کی بھی ہے۔‘‘
اس ڈیویلپر کے مطابق حالانکہ اس طرح کی اسکیمیں بنانے کے لیے کوئی 10 سے 12 مختلف حکومتی اداروں سے این او سی لینا پڑتا ہے، '' لیکن بدقسمتی سے رشوت کے عوض یہ سارے این او سی مل جاتے ہیں۔‘‘
زرعی زمین کے انتقال کے مختلف قوانین
کیونکہ زراعت ایک صوبائی معاملہ ہے، اس لیے رولز اور قوانین بھی مختلف صوبوں میں مختلف ہیں۔ پنجاب میں ایسے انتقال پر ابھی پابندی ہے لیکن سندھ آبادگار بورڈ کے صدر محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ میں زرعی زمین کے اسٹیٹس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سندھ میں قوانین مختلف ہیں، یہاں زرعی زمین کے اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کے بعد اس کو رہائشی یا کمرشل اسکیم میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اعداد وشمار کا فقدان
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر شاہد محمود کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر اس طرح کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ اب تک کتنی ایسی زمین غیر زرعی مقاصد کے لیے منتقل کی گئی ہے۔
تاہم دی گرین پولیٹیکل فاؤنڈیشن کے ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف پنجاب میں ہاؤسنگ اسکیمیں 20 سے 30 فیصد زرعی علاقوں کو نگل چکی ہیں۔ ریسرچ رپورٹ میں پنجاب کسان بورڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لاہور میں 70 فیصد اور فیصل آباد میں 30 فیصد زرعی زمین کو ہاؤسنگ اسکیمیں ہڑپ چکی ہیں۔
رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں اضافے کی وجہ
شاہد محمود کے مطابق دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی، ہوریزنٹل طریقہ تعمیر اور رئیل اسٹیٹ کا ٹیکسوں سے استشنیٰ وہ عوامل ہیں، جن کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ کو ترقی مل رہی ہے۔‘‘
رئیل اسٹیٹ کے نمائندوں کا موقف
رئیل اسٹیٹ فیڈریشن آف پاکستان کے صدر سردار طاہر محمود کا کہنا ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ رئیل اسٹیٹ والے زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ کالونیوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ہمیں بدنام کرنے کا ایک طریقہ ہے اور اس بدنامی کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ ڈیویلپرز اپنا سرمایہ دبئی اور دوسری جگہوں پہ منتقل کر رہے ہیں۔ پاکستانی دبئی میں اس وقت تیسرے بڑے رئیل اسٹیٹ سرمایہ کار ہیں۔‘‘
ڈی ایچ اے فراڈ کیس، سابق آرمی چیف کے بھائی کے خلاف تحقیقات
سردار طاہر محمود کے مطابق سپریم کورٹ کے اس کیس سے بھی رئیل اسٹیٹ پہ فرق پڑے گا، ''پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ ہاؤسنگ یونٹوں کی ضرورت ہے، جس میں 0.7 فیصد کے حساب سے ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر وقت پر گھر نہیں بنائے تو پھر گھر خریدنا لوگوں کا خواب بن جائے گا۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں 79 فیصد کمی دو ہزار اکیس سے آئی ہے۔ اب سپریم کورٹ کی یہ سماعت رئیل اسٹیٹ کو مزید متاثر کرے گی۔‘‘
زراعت کا شعبہ
زراعت پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا شعبہ ہے، جو جی ڈی پی کا تقریباً بائیس اعشاریہ انیس فیصد ہے اور ملکی آبادی کے سینتیس فیصد سے زیادہ لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان آج بھی گندم سمیت کئی زرعی اجناس دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے۔