زلزلے کا انتظار
26 ستمبر 2019قدرتی آفت ہے، خدا کی مرضی، انسان بے بس ہے، جو خدا کو منظور تھا – خود کو ان جملوں سے مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہوں۔
سوال مطمئن نہیں ہونے دیتے۔ ایسی ہی کئی بے بس کر دینے والی اور بظاہر ناقابل تسخیر 'قدرتی آفات‘ کو ان گنت صدیوں کی تگ و دو کے دوران مسخر کر کے ہی تو اکیسویں صدی کا انسان 'ترقی یافتہ‘ ہوا۔ بے بسی تو اب بھی ہے، مگر جاپانی عمارتیں اس سے زیادہ شدت کے زلزلوں کے باوجود نہیں گرتیں؟
یہی سب پہلے بھی تو ہوا تھا!
چودہ برس قبل بھی ہمارے خطے کی زمین کپکپائی تھی۔ سرکاری ٹھیکیداروں کے تعمیر کردہ اسکول سب سے پہلے زمین بوس ہوئے تھے، سرکاری عمارتیں بھی اور لاکھوں گھر بھی۔
تب مظفر آباد کے فوجی ہسپتال کی زمین بوس چھت پر کھڑے بے بسی میں سوچا تھا کہ چوبیس گھٹنے گزر گئے، اب اس ملبے تلے کون زندہ ہو گا۔
پھر تیسرے دن ترکی سے آئے امدادی کارکنوں نے جب اپنے برقی آلات سے ٹنوں ملبے تلے سانس لیتی زندگی کا کھوج لگا کر اسے زندہ نکال لیا تھا، تبھی سوچ لیا تھا کہ اب اگلے زلزلے کا انتظار نہیں کروں گا۔
تباہ کن زلزلے کے بعد ہی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک مرکزی ادارے کے قیام کا خیال آیا۔ طاقتور ملکی ادارے کو 'مجبورا‘ اس نئے ادارے کی ذمہ داریاں بھی سنبھالنا پڑیں۔
مرکزی ادارہ تو بن گیا لیکن میرپور جیسے 'دولت مند‘ مگر 'پس ماندہ‘ شہر اور اس کے نواح میں ملبے تلے پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کو اب کے بھی وردی والوں کی مدد کا ہی انتظار کرنا پڑا۔
میرا گھر زلزلہ پروف کیوں نہیں؟
جیسے تیسے ہی سہی، اب کے مدد کرنے والے پہنچ تو گئے۔ اب ایک سرکاری ہسپتال کی خستہ حال چھت تلے بستر پر لیٹے پھر سوچ رہا ہوں، میرا گھر زلزلہ پروف کیوں نہیں؟
پاکستان کا شمار قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ ملک کا قریب دو تہائی علاقہ ایسا ہے جہاں کسی بھی وقت زلزلہ آ سکتا ہے۔ کئی علاقے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
پھر مجھے کسی نے بتایا کیوں نہیں کہ میرا گھر، جہاں میں خود کو اور اپنے بچوں کو محفوظ سمجھ رہا ہوں، زلزلے کی صورت میں خطرہ بن جائے گا؟ غیر محفوظ نقشے کیوں منظور کر لیے جاتے ہیں؟
مرنے والے مر گئے، گرنے والا گھر گر گیا۔ اب کی بار بھی کچھ نہ سیکھا تو کیا اب میں پھر اگلے زلزلے کا انتظار کروں گا؟