زندگی کی فلم میں ڈبل رول ادا کرنے والی مائیں
28 جولائی 2020میں دو سیٹیں سائیڈ پر کر رہا ہوں، آپ فی الحال ایک ہی بک کروایے، ساتھ والی ویسے ہی مل جائے گی۔ اگر سواریاں زیادہ ہو گئیں، جگہ نہ رہی تو میں دوسری سیٹ دے دوں گا ورنہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ہمیں ایک سیٹ کی رقم واپس کر دی گئی۔
میں حیران تھی کہ اچھا ابھی ہم لوگوں میں اس قسم کی مروت باقی ہے۔ گاڑی میں سوار ہوئے تو سامنے والی سیٹ پر شٹل کاک برقعے میں ایک کمزور سی پٹھان خاتون بلکہ لڑکی کہنا زیادہ مناسب ہو گا نظر آئی، جس کی گود میں ایک شیر خوار بچہ تھا اور وہ سیٹ ایڈجسٹ نہیں کر پا رہی تھی اور پیچھے بیٹھی خواتین مسلسل اس کو غصے سے سیٹ درست کرنے کا کہہ رہی تھیں۔
ایک طرف شٹل کاک برقعہ دوسری طرف روتا ہوا بچہ۔ مجھ سے پچھلی سواریوں کے ناگوار تیور برداشت نہ ہوئے اور میں اس کی سیٹ درست کر کے اپنی جگہ واپس آ گئی۔ اس کے چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ آئی اور کلر کہار تک میں اپنی بیٹی اور موبائل میں گم رہی پر بیچ میں دھیان اس کی طرف چلا جاتا۔
کلر کہار رُکے اور میں بیٹی کے ساتھ کینٹین سے واپس آنے لگی تو اس کو لان میں گرم زمین پر بیٹھے دیکھا، وہ دیوار کی طرف منہ کر کے اپنے بچے کو فیڈ کروا رہی تھی۔ میں بیٹی کے ساتھ باتیں کرتے گزری تو مجھے آواز دے کر کہا، ''یہ پیسے لو اور مجھے ایک ڈبل روٹی اور پانی کی چھوٹی بوتل لا دو۔‘‘ اس کی مٹھی میں تیس روپے تھے، ایک بیس کا پرانا سا نوٹ اور ایک دس روپے کا، مجھے وہ اور بھی سادہ اور معصوم لگی۔ اندازہ ہو گیا کہ یہ معصوم بندی کارِ دنیا سے واقف نہیں، سفر پہلی بار ہے اور ڈبل روٹی اور پانی کی بوتل کا بھاؤ بھی نہیں جانتی۔ وہ بھی موٹر وے پر۔
میں بولی رہنے دو میں لے آتی ہوں، دماغ میں وہ ایک سیٹ کا کرایہ چمکا کہ وہ کس کے نصیب کا ہے، وہ اپنے پشتون تیور دکھاتے ہوئے تلخ لہجے اور میٹھی پشتو میں بولی کہ مجھے خیر نہیں چاہیے، اپنے پیسوں کی چیز چاہیے۔
میں نے پیسے پکڑے اور کینٹین پہ جو کچھ ڈبل روٹی اور پانی کا بدل ہو سکتا تھا لے آئی۔ گاڑی نے ہارن دیا تو دونوں مائیں اپنی اولادوں سمیت واپس آئیں۔ وہ سامان دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں نے چالاکی کی ہے۔ اس نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ اس کا تین سالہ بیٹا شوکت خانم ہسپتال میں زیر علاج ہے، شوہر ترکھان کا کام کرتا ہے اور وہ بیٹے کے پاس ہے۔
ابھی سات دن پہلے اس کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے، جس کے لیے وہ واپس اپنے گاؤں چلی گئی تھی اور بڑے بیٹے سے ملنے جا رہی ہے اور وہ بھی اکیلی۔ اس کے لیے دل میں عزت مزید بڑھ گئی کہ صرف سات دن پہلے وہ اتنے بڑے مرحلے سے گزر کر لاہور کا طویل سفر کر رہی ہے، وہ آدھا گھنٹہ اپنی باتیں کرتی رہی اور میں چپ چاپ سنتی رہی۔
اس کے دیے تیس روپے امام رضا کے روزے والے سکے کے ساتھ والٹ میں رکھے اور ان تمام والدین کے حوصلوں اور ہمت کا سوچنا شروع کیا، جن کو کسی شہر کے سفر کی بجائے زندگی کا سفر تنہا کاٹنا پڑتا ہے، چاہے وہ شریک حیات سے علیحدگی کی صورت ہو یا کسی ایک کے اس دارفانی سے کوچ کرنے کی وجہ سے۔
یہ بھی پڑھیے:
کسی گھر کا ٹوٹنا یا کسی ایک فریق کا بچھڑ جانا کبھی بھی کسی کی خواہش نہیں ہوتی۔ موت کی صورت تو شاید زمانہ چند دن ہمدردی کر لیتا ہے لیکن طلاق یا علیحدگی کی صورت تو سماجی دباؤ ناقابل بیان ہوتا ہے ور خصوصا عورت کے لیے۔ پہلے مرحلے میں ڈانٹ پھٹکار اور لعنت ملامت کہ گھر نہ سنبھال سکی، پھر دوسرے مرحلے پر ایک احساس جرم کے اب کس کے پاس رہوں؟ یا تو میں بوجھ بن جاؤں گی دوبارہ اپنے ماں باپ پر، بیٹیوں کو اتنا مضبوط بنایا ہی نہیں جاتا۔ مالی خود مختاری یا اعلی تعلیم کے تصور کا فقدان چیخ چیخ کر ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔
دوسرے مرحلے پر اولاد کی کسٹڈی اور نان نفقے کے مسائل، جن پر الگ سے ایک آرٹیکل لکھا جا سکتا ہے کہ ان معاملات کو سلجھانے کی بجائے کس طرح پدرسری معاشرہ بگاڑ کی طرف دھکیل دیتا ہے۔
اب اگر طلاق، موت یا صنفی فرق کی تخصیص کیے بغیر لکھوں تو جو سب سے بڑی ذمہ داری تنہا پیرنٹنگ میں کسی بھی انسان پہ عائد ہوتی ہے، وہ بچوں کی مینٹل ہیلتھ ہوتی ہے۔ اس قسم کے سانحے کے بعد بچہ کس کرب سے گزرتا اور اس کی شخصیت کے متاثر ہونے کے کس قدر امکانات ہوتے ہیں، اس کا تھوڑا بہت اندازہ ہم سب کو ہے۔
اگر آپ کا اسٹیٹس طلاق، علیحدگی یا موت کی صورت بدلا ہے تو آپ کو اپنے زندگی گزارنے کے طرز عمل کو مکمل بدلنا پڑتا ہے۔ بہتر سامع، زیادہ برداشت اور زیادہ کام کرنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے، اتنا کام کہ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ دن میں صرف چوبیس گھنٹے کیوں ہوتے ہیں اور ہفتہ اور اتوار کے دن ایک بریک والا دن کیوں نہیں ہوتا۔
اب آپ کی زندگی بھر کی چھٹیاں ختم ہو چکی ہیں۔ زندگی کی پوری فلم میں ڈبل رول نبھانے ہیں،کبھی ماں کی طرح سختی سے بچوں کو منظم کرنا ہے تو کبھی باپ کی صورت ان کو گلے لگا کر یہ ہمت دینی ہے کہ ''جا پُتر جی لے اپنی زندگی‘‘۔
اگر خاندان کی کچھ سپورٹ ہے، بچوں کی گزشتہ تربیت مضبوط بنیادوں پر کی گئی ہے اور آپ اس تلخ حقیقت کو قبول کر لیتے ہیں تو زندگی قدرے آسان رہتی ہے۔ بچے زیادہ میچور، ذمہ دار اور زمانہ شناس ہوتے ہیں۔ فرمائش کرنے سے پہلے یہ اندازہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ ماں باپ کے اختیار میں یہ ہے بھی یا نہیں کیونکہ کفالت کے معاملات ان صورتوں میں قدرے مختلف ہوتے ہیں۔
بعض اوقات بچے یہ حقیقت قبول کرنے سے بھی انکاری ہوتے ہیں کہ والدین کو ایسی صورت میں دوبارہ سیٹل ہونے یا رفاقت کا حق حاصل ہوتا ہے۔ وہ والدین کو سولو فائٹر کے روپ میں دیکھتے ہیں اور اکثر تو اولاد والے والدین کو سرے سے اس معاملے میں قبولیت ہی نہیں ملتی کہ عمومی تاثر یہ ہے کہ ہم کسی اور کے حصے کی ذمہ داری کا بکھیڑا ہی کیوں پالیں؟
ایسے خاندانوں کے بچے چونکہ عام بچوں کی نسبت زیادہ ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں، حقائق سے آشنا ہوتے ہیں اور والدین ان کی ذہنی اپروچ یا وہ والدین کی ذہنی اپروچ تک رسائی حاصل کر چکے ہوتے ہیں تو ان کے لیے اسکول اور کالجز میں کسی کا حاکمانہ انداز قابل قبول نہیں ہوتا۔
صورت حال یکسر مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی گارڈین بچے کو مسلسل اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ وہ بوجھ ہیں تو احساس کمتری کے شکار ایسے بچے آرام سے سکول وغیرہ میں دوسرے بچوں کے مذاق کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
یہ اور اس قسم کی تمام صورتیں ایسے والدین کو بھی اکثر ایک احساس جرم میں مبتلا رکھتیں ہیں کہ وہ "کافی" نہیں ہیں ، ان کو مزید بہتر کرنا چاہیے۔ ان کی اولاد بہتر ڈیزرو کرتی ہے اور وہ زمانے کی دوڑ میں ہماری وجہ سے پیچھے نہ رہ جائیں۔
یہ کچھ باتیں ان تمام مسائل کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں، جو اصل میں ایسے سولو فائٹر جھیلتے ہیں۔ میں مزید لکھنا چاہتی ہوں پر لاہور قریب ہے، میری بیٹی اس نازک اندام پشتون لڑکی کے بےبی سے کھیل کر واپس اپنی سیٹ پر آ گئی ہے اور ساتھ ہی اس کا کی پیڈ والا فون میرے ہاتھ میں تھما کر کہہ رہی ہے کہ آنٹی کہہ رہی ہیں، اپنا نمبر اس میں لکھیں۔ اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولی کہ ''مجھے خود شوکت خانم تک چھوڑ دینا یا کوئی سواری کروا کر اسے اچھی طرح سمجھا دینا۔‘‘
مجھے اس کا خود پر یہ مان بہت اچھا لگ رہا ہے، والٹ میں موجود ٹکٹ کے بچے پیسے یہ سمجھا رہے ہیں کہ جن کو ہم تنہا اور اکیلا سمجھ رہے ہوتے ہیں،ان کے لئے خدا پہلے سے سفر اور زندگی کا وسیلہ کر کے بھیجتا ہے، بس ہم مصلحتیں اور اس کی نشانیاں نہیں سمجھتے۔