جرمن باشندے یورپی یونین اور ترکی کی ڈیل کے خلاف، سروے
7 اگست 2016مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت انقرہ حکومت کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے غیرقانونی طور پر بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کو روکے اور یونان پہنچنے والے مہاجرین کو دوبارہ قبول کرے جب کہ اپنے ہاں موجود مہاجرین کی بہبود کے لیے اقدامات کرے۔ اس کے عوض ترکی کو تین ارب یورو امداد کے ساتھ ساتھ یونان سے واپس بھیجے جانے والے ہر مہاجر کے بدلے ترکی میں موجود ایک شامی مہاجر کو یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں بسانے پر رضامندی ظاہر کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس معاہدے میں ایک شق یہ بھی تھی کہ معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں ترک باشندوں کو شینگن ممالک کی ویزا فری انٹری دی جائے گی۔ تاہم ترکی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، انسدادِ دہشت گردی کے سخت قوانین اور اظہار رائے پر عائد پابندیوں کے ساتھ ساتھ وہاں گزشتہ ماہ ہونے والی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد شروع ہونے والے سخت کریک ڈاؤن کی وجہ سے اس شق پر عمل درآمد اب تک ممکن نہیں ہو پایا ہے، جس پر انقرہ حکومت سخت برہم ہے۔
گزشتہ برس اسی راستے سے ایک ملین سے زائد مہاجرین یورپی یونین پہنچنے تھے، جن میں سے سب سے بڑا حصہ اب جرمنی میں ہے۔ مہاجرین کے اس سیلاب کی وجہ سے یورپ اور خصوصاﹰ جرمنی میں سماجی اور سیاسی سطح پر خاصا تناؤ بھی دیکھا گیا ہے۔
جرمن اخبار بلڈ ام سونٹاگ میں شائع ہونے والے ایمنِڈ سروے میں کہا گیا ہے کہ 52 فیصد جرمن باشندے ترکی کے ساتھ اس ڈیل کا خاتمہ چاہتے ہیں، جب کہ اس ڈیل کی حمایت کرنے والے افراد کی تعداد صرف 35 فیصد ہے۔
اس سروے میں 502 افراد کی رائے لی گئی، جس میں دو تہائی سے زائد افراد کا کہنا تھا کہ ترکی کو ہر طرح کی مالی امداد روکی جائے جب کہ 66 فیصد کی رائے تھی کہ ترکی کے ساتھ یورپی یونین کی رکنیت سے متعلق مذاکرات فوری طور پر ختم کردیے جائیں۔