انسان گوشت کیوں کھاتے ہیں؟
6 نومبر 2022''ویگان‘‘ کے عالمی دن کے موقع پر ڈی ڈبیلو نے انسانوں کی گوشت خوری کی عادت کی وجوہات جاننے کی کوشش کی اور اندازہ لگایا کہ انسان کی گوشت خوری اس سیارے کے لیے کتنی نقصان دہ ہے۔
انسان زمانہ قبل از تاریخ سے گوشت کھاتا آیا ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ گوشت کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ محض گزشتہ پچاس برسوں کے دوران دنیا بھر میں گوشت کی سالانہ پیداوار چار گنا اضافے کے ساتھ 350 ملین ٹن ہو چُکی ہے۔ اس رجحان میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2050 ء تک دنیا بھر میں گوشت کی پیداوار 455 ملین ٹن تک ہو جائے گی۔
کورونا کی وبا نے جرمنی میں کھانے کی عادات بھی بدل ڈالیں
ناکافی غذائی ذرائع
سائنسدان طویل عرصے سے انسانوں کی گوشت خوری اور اس کی کھپت کے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات پر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ خاص طور پر صنعتی طور پر تیار کیے جانے والے گوشت کی کھپت پر۔ ماہرین اس سارے عمل کو مناسب قرار نہیں دیتے کیونکہ اس کی پیداوار کے لیے بہت زیادہ توانائی، پانی اور زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کاشت کاری کے ماحولیات پر اثرات کے بارے میں کرائے جانے والے ایک مطالعے سے پتا چلا کہ مثال کے طور پر مٹر کی کاشت کے مقابلے میں گائے کے گوشت کی پیداوار چھ گنا زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے اور اس دوران 36 گنا زیادہ اراضی بھی استعمال کی جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت اور دودھ کی مصنوعات سے پرہیز ہمارے سیارے پر منفی ماحولیاتی اثرات کو کو کم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اور اہم ترین طریقہ ہے۔ مزید برآں گوشت اور دودھ کی کھپت کے بغیر عالمی سطح پر فارمننگ کے لیے اراضی کے استعمال میں بھی 75 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ورلڈ وائلڈ لائف WWF کے ذرائع کے مطابق عالمی حیاتیاتی تنوع کو 60 فیصد نقصان گوشت والی غذا کی وجہ سے ہوتا ہے۔
’مسلم اشتہار‘ کیا جرمن معاشرہ اسلام پسندی کی طرف جا رہا ہے؟
گوشت خوری کے پیچھے چُھپی نفسیات
تمام تر مذکورہ نقصانات جاننے کے باوجود ہم میں سے زیادہ تر افراد گوشت کھاتے رہتے ہیں۔ جرمن شہر ٹریئر کی یونیورسٹی سے منسلک معاشرتی نفسیات کے ایک ماہر بنجامن بُٹلر اس رجحان کی وجہ دیرینہ عادات، ثقافت اور اسے جسم کے لیے ضروری سمجھنے، کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،''میرے خیال میں بہت سارے لوگ صرف ذائقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بہت سے روایتی کھانے گوشت کے مخصوص پکوانوں کے گرد گھومتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جانوروں کا گوشت کھانے کی عادت کا مطلب ہے کہ ہم اکثر خود سے یہ سوال تک نہیں کرتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ان کے بقول، ''گوشت خوری کی عادت زیادہ تر وقت ہمیں یہ سوچنے سے روکتی رہتی ہے کہ گوشت کا استعمال درحقیقت بُرا ہے۔‘‘ زیادہ تر وقت، یہ عادت ہمیں یہ سوچنے سے روکتی ہے کہ گوشت کا استعمال درحقیقت برا ہے کیونکہ یہ صرف وہ چیز ہے جو ہم ہر وقت کرتے ہیں۔‘‘
کم گوشت کھانا ماحول دوستی ہے، لیکن یہ بات اتنی درست بھی نہیں
گوشت کھاتے وقت کی بےحسی
گوشت کھاتے وقت ہمیں بالکل یہ احساس نہیں ہوتا کہ جس جانور کا گوشت ہماری مرغوب غذا بنا ہے اُسے کتنی تکلیف سے گزرنا پڑا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پلیٹ میں گوشت پکوان کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پلیٹ میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی، جو ہمیں کسی جانور کی یاد دلائے۔ جرمن ماہر سماجی نفسیات ُبٹلر کہتے ہیں کہ گوشت کھانے والوں کا جب ویگان یا ویجیٹیرین یا پھر جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عناصر سے سابقہ پڑتا ہے اور ایک مختلف نقطہ نگاہ سے جب گوشت خور اس موضوع پر کسی کی گفتگو سنتے ہیں تو اپنے اپنے نظریے کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک آسان منطق یہ پیش کی جاتی ہے،'' انسانوں نے ہر دور میں گوشت کھایا ہے۔‘‘ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ گوشت کو اپنی غذا کا لازمی حصہ سمجھنا مردوں کا خاصا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چند ارتقائی غلط فہمیوں کا سماجی رویوں سے گہرا تعلق رہا ہے۔ مثال کے طور پر جانوروں کا شکار اور گوشت کا استعمال مردوں کی طاقت اور شجاعت کی نشانی سمجھا جاتا رہا ہے۔
کیا بار بی کیو کی عادت آپ کی جان بھی لے سکتی ہے؟
جدید دور میں مردوں سے کہیں زیادہ خواتین ویجیٹیرین یا سبزی خور ہوتی جا رہی ہیں۔
'گوشت نے ہمیں انسان بنایا‘، مفروضہ
ایک طویل عرصے تک سائنسدانوں کا یہ ماننا تھا کہ ہمارے آباؤاجداد کی انسانی جسم کی شکل میں نشوونما کی بڑی وجہ ان کا گوشت کھانا تھا اور یہ کہ ہومو ایریکٹس یا قدیم زمانے کی انسانی شکل جیسی ایک مخلوق جس کا دماغ چھوٹا ہوا کرتا تھا اُس کے دماغ کو بڑا بنانے اور دماغی نشو و نما کے لیے توانائی کی ضرورت تھی اور یہ انرجی گوشت اور ہڈیوں کے گودے سے حاصل کی گئی ۔ یہ مفروضہ دو ملین سال قبل کے دور کے بارے میں ہے۔ ایک نئے مطالعے نے تاہم اس مفروضے کو چیلنج کیا اور اس نے انسانی ارتقاء میں گوشت کے استعمال کی اولین یا ناگزیر حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
(انے صوفی برنڈلن) ک م /