سابق برطانوی رکن پارلیمان، پنجاب کا نیا گورنر
5 اگست 2013چوہدری سرور برطانوی شہری کی حیثیت سے یہ برطانوی رکن پارلیمان بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ کی شہریت چند دن قبل ہی ترک کی ہے۔ پنجاب کے نئے گورنر کا ذاتی کاروبار اور خاندان کے ارکان اب بھی برطانیہ میں ہیں اور وہ فی الحال پاکستان منتقل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
پنجاب کے نئے گورنرچوہدری محمد سرور کا ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کا خاندان، بچے اور پوتے پوتیاں سب برطانیہ میں مقیم ہیں اور یہ کہ فیملی کو چھوڑ کراکیلے پاکستان آنا ان کے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ان کا خاندان پاکستان منتقل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے؟ چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا، ’’میری خواہش ہے کہ میرا کم از کم ایک بیٹا تو پاکستان آ جائے تاکہ پاکستان کے ساتھ میرے خاندان کا لنک برقرار رہ سکے‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ ایک ایسا صوبہ جس کا ایک گورنر اپنے ہی سکیورٹی گارڈ کے ہاتوں قتل ہو چکا ہو اور اس گورنر کے ایک بچے کو بھی دہشت گرد اٹھا کر لے جا چکے ہیں ایسے صوبے کا گورنر بننا آپ کو کیسا لگتا ہے؟ چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ پنجاب کا گورنر بننا ایک مشکل فیصلہ تھا اور وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کے ذریعے دہشت گردی اور غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے اس لیے اگر وہ اپنے برطانوی تجربات کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں کوئی تبدیلی لا سکے تو یہی ان کی کامیابی ہو گی۔
’’یہ لاہور شہر گلاسکو کے ساتھ جڑواں شہر کا درجہ رکھتا ہے، اسی طرح یہاں لاہور میں جو بچوں کا ہسپتال ہے وہ ہمارے گلاسکوکے چلڈرن ہسپتال کے ساتھ ٹوئن ہسپتال ہے، پنجاب کی ایمر جنسی سروس کے ادارے کو بنانے اور اس کے اہلکاروں کی تربیت میں بھی سکاٹش فائر بریگیڈ سروسز کا بڑا اہم کردار ہے۔ میرے خیال میں میرے گورنر بننے سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات میں بہتری آئے گی، اور دونوں ملک ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ حاصل کر سکیں گے۔‘‘
18 اگست 1952ء کو پنجاب کے ضلح ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہونے والے چوہدری محمد سرور نے گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے گریجوایشن کیا۔ محمد سرور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ایک عام دیہاتی گھرانے میں پیدا ہوئے، ٹاٹ سکولوں میں پڑھے، اور پاکستان ان کے لیے اجنبی ملک نہیں ہے، چوہدری سرور 1976ء میں برطانیہ منتقل ہو گئے۔ کیش اینڈ کیری سے متعلقہ اپنا کاروبار مستحکم کرنے کے بعد 1982ء میں وہ برطانیہ کی لیبر پارٹی میں شامل ہوئے، 1992ء میں وہ گلاسکو سٹی کے کونسلر بنے اور 1997ء میں وہ برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان رکن منتخب ہوئے۔
چوہدری سرور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گورنر کی حیثیت سے فروغ تعلیم ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے دوست سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن (جو آج کل فروغ تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے ہیں) سے مل کر اور عالمی برادری کے تعاون سے پاکستان میں 70 لاکھ بچوں کو تعلیم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چانسلرکی حیثیت سے وہ صوبے کی یونیورسٹیوں میں اختلافات اور لڑائی جھگڑے ختم کرا کے ان کے تعلیمی معیار کو بھی بلند کرنے کی کوشش کریں گے۔
پیر پانچ اگست کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چوہدری سرور سے پنجاب کے 35ویں گورنر کا حلف لیا۔ اس موقعے پر نئے گورنر کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لیے بھی کام کریں گے۔
اگرچہ گورڈن براؤن اور سعدیہ وارثی سمیت کئی برطانوی رہنماؤں نے چوہدری سرور کے گورنر پنجاب بننے کو سراہا ہے لیکن پاکستان میں پنجاب کے نئے گورنر کی تعیناتی پر اختلافی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ ممتاز کالم نگار عطا الحق قاسمی نے ڈی ڈبلیو کوبتایا کہ پاکستان میں وزرائے اعظم تو امپورٹ ہوتے رہے ہیں لیکن اب صوبائی گورنر بھی امپورٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں ہے جو گورنر پنجاب بننے کا اہل ہو۔ قاسمی کےبقول اس فیصلے سے پاکستان میں موجود ان لوگوں کی حق تلفی ہوئی ہے جو مسلم لیگ نون کے لیے قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ عطا الحق قاسمی کے خیال میں جو شخص بہتر مستقبل کے لیے اپنا ملک چھوڑ کر برطانیہ چلا جائے، پھر مزید بہتر مستقبل کے لیے واپس پاکستان آجائے، ایسے شخص کے بارے میں کوئی پتہ نہیں کہ وہ اپنے مستقبل کی مزید بہتری کے لیے آنے والے دنوں میں کس ملک میں جانا پسند کرے: ’’میرے خیال میں سمندر پار مقیم پاکستانی بہت قابل احترام ہیں، لیکن وہ کنارے پر بیٹھے ہیں، ان کو ان لوگوں پر ترجیح نہیں دینی چاہیے جو منجدھار کے بیچ بیٹھ کرطوفانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں چوہدری محمد سرورتسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست برطانیہ کی سیاست سے بہت مختلف ہے، لیکن بعض مبصرین کے مطابق وہ اپنے بیانات میں جس تواتر کے ساتھ شریف برادران کی تحسین کر رہے ہیں لگتا یہی ہے کہ وہ پاکستانی سیاست میں بھی کامیاب رہیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ ان کو گورنر بنانے کا فیصلہ میان نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ نون کا تھا۔ یہ بات قابل ذکر کہ میاں نواز شریف کے صاحب زادے حسن نواز بھی برطانیہ میں کاروبار کر رہے ہیں۔