سابق صدر آصف علی زرداری گرفتار
10 جون 2019
انہیں کل منگل گیارہ جون کو جسمانی ریمانڈ کے لیے احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ سابق ملکی صدر اٹھائیس مارچ سے عبوری ضمانت پر تھے، جس میں پانچ مرتبہ توسیع کی گئی تھی۔ آصف زرداری کے وکیل فاروق نائیک نے کہا ہے کہ اس کیس میں نیب کی بدنیتی کھل کر سامنے آ گئی ہے کیونکہ نیب کے چیئرمین کے پاس گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا مگر پھر بھی انہوں نے ایسا کیا۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئینی ادارے آزاد اور خود مختار ہیں اور آصف علی زرداری کو حکومتی ایماء پر گرفتار نہیں کیا گیا۔ آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی نے پارلیمان میں احتجاج بھی کیا۔
جب پاکستان پیپلز پارٹی شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرنا چاہا، تو ڈپٹی اسپیکر نے انہیں بولنے کی اجازت دیے بغیر ہی ایوان کی کارروائی کل منگل تک کے لیے ملتوی کر دی۔ اس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کی تھی۔
بلاول بھٹو اور نواز شریف کی ملاقات: تيمار داری يا سياست؟
پاکستان میں جاری احتساب کا عمل: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
آصف علی زرداری کی گرفتاری کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے کراچی اور سندھ کے بعض شہروں میں علامتی احتجاج بھی کیا اور بعد میں پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔ خیال ہے کہ کل منگل کے روز قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیے جانے کے دوران حکومتی رویے کے خلاف اپوزیشن جماعتیں اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائیں گی۔