سابق طالبان کمانڈر پر امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کا الزام
8 اکتوبر 2021امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے جمعرات،7 اکتوبر کے روز جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے،”حاجی نجیب اللہ، جن پر پہلے ہی سن 2008 میں ایک امریکی صحافی کو اغوا کرنے کا الزام ہے، آج سن 2008 میں افغانستان میں امریکی سروس کے اراکین پر حملوں کے لیے ملزم قرار دیا جا رہا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں تین امریکی فوجیوں اور ان کے افغان ترجمان کی موت ہو گئی تھی جب کہ ایک امریکی ہیلی کاپٹرکو بھی مار گرایا گیا تھا۔"
حاجی نجیب اللہ کو امریکیوں کے قتل میں ماخوذ کیے جانے کی خبریں امریکا کی قیادت میں افغانستان پر فوجی حملے کی 20ویں سالگرہ کے موقع پر آئی ہیں۔ امریکا نے 7اکتوبر 2001 کو افغانستان پر حملہ کیا تھا۔
الزامات کی تفصیلات
ان الزامات کا تعلق سن 2007 اور سن 2009 کے درمیان امریکی فوجیوں کے خلاف کیے گئے حملوں سے ہے۔
ایک واقعے میں حاجی نجیب اللہ کو ملزم بنایا گیا ہے جو 26 جون 2008 کو پیش آیا جب امریکی فوجی قافلے پر حملہ کیا گیا، جس میں تین فوجی اہلکار مارے گئے۔
ایک دوسرا واقعہ اکتوبر 2008 کا ہے۔ حاجی نجیب اللہ کی قیادت میں ان کے جنگجووں نے ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر پر آر پی جی سے مبینہ طور پر حملہ کرکے اسے گرادیا۔ طالبان نے اس وقت دعوی کیا تھا کہ ہیلی کاپٹر پر سوار تمام افراد مارے گئے۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق حملے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
طالبان کے سابق کمانڈر پرنومبر 2008میں ایک امریکی صحافی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دو افغان شہریوں کو اغوا میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
طالبان حکومت میں تیسری توسیع، کوئی خاتون شامل نہیں
ان تینوں یرغمالوں کو سرحد تک لے جایا گیا اور پاکستان میں داخل کردیا گیا جہاں انہیں اگلے سات ماہ قید میں گزارنے پڑے۔ امریکی محکمہ انصاف کے بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ اغوا کاروں نے صحافی کی اہلیہ کو فون کیا جس میں صحافی کو بندوق کی نوک پر اپنی زندگی کی بھیک مانگنے کے لیے مجبور کیا گیا۔
سرکاری وکیل آئڈرے اسٹراس نے بیان میں کہا،”جیسا کے الزام میں کہا گیا ہے، افغانستان میں تصادم کے انتہائی خطرناک دور میں سے ایک کے دوران حاجی نجیب اللہ نے طالبان انتہاپسندوں کے ایک خطرناک گروپ کی قیادت کی، جس نے افغانستان کے بعض علاقوں میں دہشت پیدا کی اور امریکی فوجیوں پر حملہ کیا۔"
حاجی نجیب اللہ کو اکتوبر 2020میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور انہیں یوکرین سے امریکا بھیج دیا گیا، جہاں وہ اس وقت جیل میں ہیں۔
افغانستان کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟
افغانستان اس وقت انسانی اور اقتصادی بحران سے دو چار ہے۔ طالبان کے اگست میں ملک میں کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے پیسوں کی قلت ہوگئی ہے کیونکہ افغانستان کے بیرون ملک اثاثوں کو منجمد کردیا گیا ہے۔
طالبان کی نئی حکومت وسائل کو آزاد کرانے کی کوشش میں عالمی برادری سے اپنے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
افغانستان کے سابق سفارت کار عمر صمد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت کے لیے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بہت زیادہ متبادل موجود نہیں ہیں۔”ہمارے پاس محدود چوائس ہے۔ یا تو ہم افغانستان کو الگ تھلگ رکھیں، یا ہم طالبان کو الگ تھلگ رکھیں اور ہم نے گزشتہ برسوں میں 35 ملین عوام کو الگ تھلگ رکھا۔ یا پھر ہم اس طرح کے اقدامات کریں جس سے کہ درست پیغام جائے۔"
برطانوی سفارت کاروں کی طالبان حکومت سے پہلی بات چیت
عمر صمد کا کہنا تھا،”ہمیں طالبان کوبعض شرطوں کے ساتھ تسلیم کرنا چاہئے اور امید کرنی چاہئے کہ وہ گزرتے وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کرلیں گے اور یہ بھی امید کرنی چاہئے کہ وہ انسداد دہشت گردی سمیت بہت سے شعبوں میں ایک اچھے شریک کار ہوں گے۔"
مغربی ممالک انسانی حقوق اور خواتین کے حوالے سے ماضی میں طالبان کے رویوں کی وجہ سے نئی قیادت کو تسلیم کرنے سے جھجھک رہے ہیں۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ روابط بعض شرائط پر منحصر ہیں۔ ان میں شمولیتی حکومت نیز خواتین اور اقلیتوں کو ان کے حقوق دینا شامل ہیں۔
(آرتھربروک) ج ا/ ص ز
اس رپورٹ میں روئٹرز سے بھی مدد لی گئی ہے۔