1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کی رہائی کے امکانات روشن

18 مارچ 2020

جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائی کے بعد اب ان کے بیٹے، نیشنل کانفرنس کے رہنما اور سابق وزیر اعلٰی عمر عبداللہ کی رہائی کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Zdgs
Omar Abdullah
تصویر: AP

بھارتی سپریم کورٹ نے آج مودی حکومت سے ایک ہفتہ کے اندر یہ بتانے کے لیے کہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی اور نیشنل کانفرنس کے رہنما عمرعبداللہ کورہا کرنا چاہتی ہے یا نہیں اور اگر چاہتی ہے تو فوراً رہا کرے۔

سپریم کورٹ نے اسی کے ساتھ مودی حکومت پر واضح کیا کہ اگر وہ عمر عبداللہ کو رہا نہیں کرتی ہے تو اس کے خلاف ان کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ کی طرف سے دائر کردہ عرضی پر اگلے ہفتے سماعت شروع کردے گی۔

عمرعبداللہ بھی کشمیر کے دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ گزشتہ برس پانچ اگست سے حراست میں ہیں جب مودی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردیے جانے کے بعد سے ہی مرکزی حکومت نے ریاست میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی خدمات سمیت کئی طرح کی پابندیاں عائد کردی تھیں اورسینکڑوں سیاسی رہنماؤں اور نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا تھا۔

عمرعبداللہ فی الحال بدنام زمانہ سیاہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت زیر حراست ہیں۔ حراست کے چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد ریاستی انتظامیہ نے عمر عبداللہ کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کردیا تھا۔ اس قانون کے تحت انتظامیہ کسی شخص کو دو سال تک قیدمیں رکھ سکتی ہے۔

Dr. Abdullah Farooq und Omar Abdullah.
ڈاکٹر عبداللہ اور عمر عبداللہ۔تصویر: dpa

 ان کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے اسے ’غیر آئینی، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اورحبس بے جا‘ قرار دیتے ہوئے اپنے بھائی کو رہا کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ سارہ عبداللہ نے اپنی عرضی میں دلیل دی تھی کہ عمرعبداللہ کو حراست میں رکھنے کے احکامات کے حق میں جو اسباب بیان کیے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں۔

سارہ عبداللہ نے حکومت پر لوگوں سے ان کی زندگی کا حق چھیننے کا الزام بھی لگایا تھا اور کہا کہ انتظامیہ نے صرف اس امر کو یقینی بنانے کے لیے انہیں نظربند کیا کہ دفعہ 370 کو ختم کیے جانے کے خلاف مخالفت کو دبایا جاسکے۔ دوسری طرف جموں و کشمیر انتظامیہ نے عمرعبداللہ کی حراست کا دفاع کرتے ہوئے ان کے ماضی کے رول کا زکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرانہیں رہا کردیا گیا تو وہ قانون و انتظام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

سارہ عبداللہ نے عرضی میں مزید کہا ہے کہ حکومت نے پبلک سیفٹی ایکٹ کا استعمال عمر عبداللہ کو صرف قیدمیں رکھنے کے لیے نہیں بلکہ نیشنل کانفرنس کی پوری قیادت کو اور اس کے ساتھ دیگر سیاسی پارٹیوں کی قیادت کو قید میں رکھنے کے لیے کیا ہے۔ اسی طرح کا رویہ فاروق عبداللہ کے ساتھ اپنایا گیا جنہوں نے برسوں تک ریاست اور مرکزی حکومت کی خدمت کی اور بھارت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔

Aktivisten der Shiv Sena verbrennen ein Bildnis von Omar Abdullah
شیو سینا کے حامی عمر عبداللہ کا پتلا جلا رہے ہیں۔تصویر: UNI

 حکومت نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو سات ماہ سے زیادہ عرصہ تک حراست میں رکھنے کے بعد گذشتہ 13 مارچ کو رہا کردیا تھا۔ انہوں نے اپنی رہائی کے بعد حکومت کی اجازت سے اپنے بیٹے عمر عبداللہ سے ملاقا ت کی تھی۔ انہوں نے اپنی سیاسی حریف پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی سے بھی کل ملاقات کی تھی۔ فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ تمام سیاسی لیڈروں کی رہائی کے بعد ہی وہ کوئی بیان دیں گے۔

جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے راجیا سبھا رکن نظیر احمد لاوے نے گزشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرنے کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ وزیراعظم نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ جموں و کشمیر میں زیر حراست سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت تمام سیاسی رہنماؤں کو جلد ہی رہا کردیا جائے گا۔ نظیر احمد نے وزیر اعظم مودی کوجموں و کشمیر کی موجودہ صورت حال سے آگاہ کراتے ہوئے تمام سیاسی رہنماؤں اور نوجوانوں کو فوراً رہا کرنے کی درخواست کی تھی۔

متعدد سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں آج کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ مودی حکومت جموں و کشمیر میں حالات کو بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے گی تاکہ کشمیریوں کو درپیش پریشانیوں سے نجات مل سکے۔

جاوید اختر، نئی دہلی 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں