سابق پاکستانی کرکٹر اور بھارتی صحافی کی سوشل میڈیا پر تکرار
25 اکتوبر 2023بھارت میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے میچوں کے دوران بالخصوص پاکستانی ٹیم کے ساتھ بھارتی مداحوں کے رویے کی صحافی عارفہ خانم شیروانی نے جب تنقید کی تو پاکستان کے سابق کرکٹر دانش کنیریا نے بھی اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا، جس پر بحث شروع ہو گئی۔ اس درمیان حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان گورو بھاٹیا بھی میدان میں کود پڑے لیکن ہندو قوم پرستوں کو یہ بات راس نہیں آئی اور انہیں ٹرول کرنا شروع کردیا۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی یہ بحث اب کافی دلچسپ ہو گئی ہے۔
سوشل میڈیا پرجاری بحث کیا ہے؟
بھارت کی معروف صحافی عارفہ خانم شیروانی ہندو شدت پسندی اور مودی حکومت پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں انہوں نے ورلڈ کپ میچوں کے دوران بھارتی شائقین کے رویے کو "انتہائی افسوس ناک" قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ لکھا۔
پاکستان نے اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر شکایت کر دی
انہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا "ورلڈ کپ کے میچوں کے دوران بہت سے کرکٹ شائقین کے قابل افسوس رویے سے مجھے ایک بھارتی ہونے کے ناطے سبکی اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ اسپورٹس کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا ہے لیکن کھیلوں کے تئیں یہ گھٹیا، غیر محفوظ اور اکثریتی فرقے کا رویہ مودی اور آر ایس ایس کے بھارت کی علامت ہے، جسے انہوں نے گذشتہ دہائی میں پروان چڑھایا ہے۔"
دانش کنیریا کا ٹوئٹ، تنازع کی وجہ
عارفہ خانم شیروانی کی پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے سابق کرکٹر دانش کنیریا نے لکھا، "اگر آپ کو بھارتی ہونے پر شرم محسوس ہو رہی ہے تو میرے ملک پاکستان آجائیں۔ بھارت میں آپ جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت میں بہت سے لوگ آپ کا سفر خرچ بخوشی اٹھانے کے لیے تیار ہوں گے۔"
خیال رہے کہ بھارت میں جب بھی کوئی شخص مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا ذکر کرتا ہے تو ہندو قوم پرستوں کی "فوج" اس کے پیچھے پڑجاتی ہے اور اسے فوراً پاکستان چلے جانے کا مشورہ دینا شروع کردیتی ہے۔
کرکٹ ورلڈ کپ: پاکستان پر افغان ٹیم کی فتح پر طالبان کا ردعمل
عارفہ خانم کا ٹوئٹ اور اس پر دانش کنیریا کے جواب کے بعد سوشل میڈیا پر بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس بحث نے اس وقت تنازع کی صورت اختیار کرلی جب متعدد صارفین نے عارفہ خانم شیروانی کے ٹوئٹ کو "بھارت مخالف" قرار دینا شروع کردیا۔ جس کے بعد بھارتی صحافی نے لکھا کہ کنیریا نے ان کے خلاف ایک "قاتل ہجوم" کو کھڑا کردیا۔
بی جے پی لیڈر میدان میں کود پڑے
اس بحث نے اس وقت نئی شکل اختیار کرلی جب ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی ترجمان گورو بھاٹیا بھی اس میں کود پڑے۔ انہوں نے کہا کہ گوکہ وہ عارفہ خانم کے ٹوئٹ کی تائید نہیں کرتے لیکن وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ وہ ان کی ہم وطن ہیں۔
گورو بھاٹیا نے لکھا،" مسٹر دانش کنیریا اگر آپ پہلے اپنے گھر کو درست کرلیں تو زیادہ اچھا ہوگا۔ عارفہ نے ہمارے ملک پر نکتہ چینی کی، غلط کیا۔ لیکن ہمارے باہمی تعلقات اس مذہب کی بنیاد پر طے نہیں ہوتے جس پر ہم ذاتی طور پر عمل کرتے ہیں بلکہ اس ملک کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں جس سے ہم محبت کرتے ہیں، ہمارا بھارت۔"
گورو بھاٹیہ نے مزید لکھا،" اگرچہ ان(عارفہ) کے اور ہمارے درمیان یہ بہت کم مشترک ہے اس کے باوجود میں نے ہم دونوں کے مشترکہ عقیدے کی بنیاد پر اپنے بھارتی ساتھی کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے یقینی طورپر ہر شہری کو معلوم ہوگا کہ ملک سے محبت کا رشتہ ہمیشہ سب سے مضبوط رشتہ ہے۔ یہ مذہب کے رشتے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔"
کرکٹ ورلڈ کپ:انگلینڈ پر فتح کے بعد دہلی میں افغانوں کا ردعمل
بی جے پی رہنما نے کنیریا کو سخت لہجے میں نصیحت کرتے ہوئے کہا، "کسی بھارتی ساتھی کو پریشان کرنے کی کبھی بھی جرأت نہ کریں، ورنہ آپ کو بھی کرکٹ کی گیند کی طرح میدان سے باہر پھینک دیا جائے گا۔ جے ہند! "
ہندو قوم پرست ناراض
ایک مسلمان صحافی کی حمایت میں بی جے پی رہنما کا ٹوئٹ ہندو قوم پرستوں کو راس نہیں آیا۔ انہوں نے گورو بھاٹیا کا ٹرول شروع کردیا، حتی کہ ان کے فہم پر بھی سوالات کھڑے کردیے۔ انہوں نے بی جے پی ترجمان سے پوچھا کہ انہیں یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آئی کہ سابق پاکستانی اسپنر بالواسطہ طور پر بھارت کی حمایت کر رہے تھے۔
ادھر کنیریا نے بھی اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، "مسٹر گورو بھاٹیا یہ فیصلہ لوگوں کو کرنے دیجئے کہ کس کو میدان سے باہر پھینکنا ہے۔ آپ میری قسمت کا فیصلہ نہیں کریں گے۔ بہر حال... لوگ عارفہ خانم کو آپ کی حمایت کا خیر مقدم کررہے ہیں؟؟"
پاکستانی کرکٹر حسن علی کے سسراپنی نواسی سے ملنے کے لیے بے قرار
بھاٹیا کو شاید اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ہی انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں عارفہ خانم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، "آپ جیسے لوگوں میں اتنا زیادہ زہر بھرا ہوا ہے کہ آپ کو پاکستان سے بھی دعوت نامے ملنے شروع ہو گئے ہیں۔"
بحث جاری ہے
عارفہ نے ٹوئٹ کیا کہ یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا کہ ایک معروف بین الاقوامی کرکٹ کی وجہ سے مجھے فرقہ وارانہ ٹرول کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے... کسی مسلمان کو پاکستان جانے کے لیے کہنا اتنا ہی فرقہ وارانہ ہے جتنا کسی ہندو کو اسلام قبول کرنے کے لیے کہنا۔ لیکن وہ یقین رکھیں، میں پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے اپنا وطن نہیں چھوڑ رہی ہوں۔"
دانش کنیریا نے اس پر جواباً سوال کیا، عارفہ"آپ مجھے ایک بھی ایسا ٹوئٹ دکھادیں جس میں آپ نے بھارت یا اس کے کلچر کی تعریف کی ہو۔ میں تو آپ سے صرف وفاداری کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ پتہ چل گیا۔ اب اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ "
خونی تاریخ کے سائے میں بھارت کے پچھتر سال
کنیریا نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے لکھا،"میں پاکستان میں پیدا ہوا، پاکستان کے لیے کھیلا اور مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ کچھ لوگوں نے میرے ساتھ تفریق آمیز سلوک کیا لیکن میں اس کے لیے سب کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ میں اپنے ملک کے ساتھ زیادتی نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر میرے ساتھ، میری کمیونٹی کے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے تو میں ان کے لیے آواز اٹھاتا رہوں گا۔"
سوشل میڈیا پر یہ جنگ اب بھی جاری ہے۔