1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق یوگوسلاویہ میں جنگی جرائم، تمام مبینہ ملزمان کو ان کے کیے کی سزا نہیں ملی گی

Imtiaz Ahmad17 اکتوبر 2012

جنگی جرائم کا ٹریبیونل برائے سابق یوگوسلاویہ گزشتہ بیس برسوں سے تمام ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوششوں میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود آخر میں تمام مبینہ ملزمان کو ان کے کیے کی سزا نہیں ملی گی۔

https://p.dw.com/p/16RaW
تصویر: Reuters

سابق یوگوسلاویہ میں جنگی جرائم سے متعلق اس خصوصی عدالت کو تنقید کا سامنا بھی ہے اور اس کی تعریف بھی کی جا رہی ہے۔ منگل کو دی ہیگ میں اس خصوصی ٹریبیونل کے سامنے سابق یوگوسلاویہ میں جنگی جرائم کے دو ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع کی گئی ہے۔ سب سے پہلے گوران حاجچ کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ کروشیا کے سربوں کے اس سابق قائد کو 1991ء سے لے کر 1995ء تک جاری رہنے والی کروشیا کی جنگ کے دوران جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ حاجچ 1992ء اور 1993ء کے میں سربیا کی فوجی امداد سے تشکیل پانے والی سرب جمہوریہ کرائینا کے صدر رہے تھے۔ حاجچ کو 2011 ء میں موجودہ سربیا سے گرفتار کرنے کے بعد دی ہیگ کی عدالت کے حوالے کیا گیا تھا۔

اسی طرح 67 سالہ بوسنی سرب رہنما راڈووان کراڈچچ کو بھی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں انہوں نے خود ہی اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران ایسے شواہد پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جن سے ثابت ہو سکے کہ وہ سربرینتسا کے قتل عام سے متعلق الزامات کے سلسلے میں بے گناہ ہیں۔ اس قتل عام میں اقوام متحدہ کے ایک سابقہ حفاظتی زون میں سات ہزار سے زائد مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔

Goran Hadzic
بوسنی سرب رہنما راڈووان کراڈچچ کو بھی عدالت کے سامنے پیش کیا گیاتصویر: AFP/Getty Images

مِرکو کلارین نامی صحافی جنگی جرائم سے متعلق اس خصوصی عدالت پر تنقید کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ سن 1993 میں ساٹھ ملزمان کو سزائیں سنائی گئی تھیں۔ 35 ملزمان کے خلاف سماعت ابھی جاری ہے جبکہ بارہ افراد کو رہا کر دیا گیا تھا۔ اس صحافی کے مطابق انصاف کی فراہمی میں اس قدر تاخیر کی جا رہی ہے کہ ملزمان طبعی موت مرتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سابق یوگو سلاویہ کے صدر سلوبوڈان میلوشے وچ کی مثال دیتے ہیں، جو سن 2006ء میں کسی بھی فیصلے سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے۔ اسی طرح کئی دیگر ملزمان بھی کسی عدالتی فیصلے سے پہلے ہی انتقال کر چکے ہیں۔

سن 2014ء میں اس خصوصی ٹریبیونل کا مینڈیٹ ختم ہو رہا ہے اور اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ اس مدت میں اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی توسیع کی جائے گی۔ گوران حاجچ اور راڈووان کراڈچچ کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اسی وجہ سے یہ معاملہ طول کھینچ سکتا ہے۔

صحافی مِرکو کلارین کے مطابق کروشیا، سربیا اور بوسنیا کے عدالتی نظاموں میں اصلاحات لائی جا چکی ہیں اور سن 2014ء کے بعد جنگی جرائم کے ملزمان کو ان کے ملکوں میں بھیج دیا جائے گا، جہاں ان کے خلاف مقدمات کی سماعت تو کی جائے گی لیکن انٹرنیشنل میڈیا میں اسےکوئی خاص اہمیت نہیں دی جائے گی۔

اس موقف کے برعکس ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ سٹیفنی ڈفنر کا کہنا ہے کہ اس خصوصی ٹریبیونل نے انتہائی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ’’اسی کی وجہ سے ہم بہت اہم حقائق تک پہنچے ہیں اور ہمیں پتہ چلا ہے کہ سربرینتسا کے قتل عام کے دوران کیا ہوا تھا۔‘‘

J. Mahncke, ia / F. Schulz, mm