سانحہء کراچی: حقائق کی بھیانک تصویر
13 ستمبر 2012کراچی میں علی انٹرپرائزز نامی گارمنٹ فیکٹری میں منگل کی شام بھڑکنے والی آگ نے جیتے جاگتے 290 افراد کو سوختہ لاشوں میں تبدیل کر دیا۔ یہ اندہوناک حادثہ ملکی تاریخ میں آتشزدگی کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ اس آگ نے جہاں غریبوں سے ان کے کفیل چھین لیے وہیں صنعتی حوالو ں سے حکومتی اقدامات اور قوانین کی بھی قلعی کھول دی ہے۔
صنعتی مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ قوانین میں مزدوروں کے لیے سہولیات اور حقوق تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد رشوت ستانی اور سیاسی دباو کے باعث ممکن نہیں۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فرحت پروین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے آئی ایل او کاکنونشن موجود ہے مگر پاکستان میں اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ۔ انکا کہنا ہے کہ نوے فیصد سے زائد صنعتوں میں 1934کے فیکٹری ایکٹ کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ فرحت پروین کہتی ہیں، ’’ 2003 میں جرنل مشرف کے دور میں صنعت کاروں کے مطالبے پر فیکٹریوں کے معائنے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی، جسکی وجہ سے فیکٹری مالکان کھل کر خلاف ورزی کر رہے ہیں اور مزدوروں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہو رہی ہیں، سانحہ بلدیہ ٹاون اس کی مثال ہے‘‘۔
اس حادثے میں بچ جانے والے زخمی محمد ارشدنے بتایا ہے کہ آگ لگنے سے ایک دھماکہ ہوا وہ اور اس کے ساتھی جان بچانے کے لیے بھاگے مگر آگ نے انھیں ہر طرف سے گھیر لیا اور وہ بہت مشکل سے کھڑکی سے کود کر پہلی منزل سے چھلانگ لگانے میں کامیاب ہو سکا۔
بلدیہ کراچی کے ایڈمنیسٹر محمد حسین سید نے جائے وقوعہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادارے کے پاس فنڈز کی کمی ہے، جس کی وجہ سے آگ بجھانے کے آلات اور جدید گاڑیا ں خریدنے میں مشکلات درپیش آرہی ہیں۔
مزدوروں کے حقوق کی تحفظ کرنے والی تنظیمیوں کے مطابق تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود صنعتی اداروں اور فیکٹریوں میں لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزی جاری ہے اور عمل درآمد کروانے والے سرکاری اہلکار رشوت لے کر ان فیکٹریوں کو سرٹیفیکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔ کراچی کے متعدد کارخانوں میں آج بھی غیر تصدیق اورغیر معائنہ شدہ بوائلراستعمال ہو رہے ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ کر ایک اور سانحے کا موجد بن سکتے ہیں۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: شادی خان سیف