1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سخت پیغام‘ لے کر دو امریکی وزیر اسی ماہ پاکستان جائیں گے

7 اکتوبر 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلیٰ سفارتی اور فوجی مشیر رواں ماہ کے اختتام پر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ٹرمپ کے حالیہ سخت لہجے کے بعد اس پیش رفت کا مقصد آخر کیا ہو سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/2lPzV
USA Donald Trump Kabinettssitzung
تصویر: Reuters/K. Lamarque

کچھ ہفتے قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلام آباد حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’شر پھیلانے والوں‘ کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتی ہے۔ اس سخت بیان بازی کے بعد اب امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پاکستان کے دورے کرنے والے ہیں۔ پاکستانی اور امریکی سفارتی ذرائع نے ان دوروں کی تصدیق کر دی ہے۔ وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس پاکستان میں اعلیٰ سول اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں میں دونوں ممالک کے مابین تعاون اور اعتماد کی ایک نئی فضا پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔

پاکستان کے ساتھ ’مزید ایک مرتبہ‘ مل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے، امریکا

پاکستانی فوج کے سربراہ افغانستان کے دورے پر

’بھارتی فوجی بوٹوں کی چاپ افغان سرزمین پر سنائی نہیں دے گی‘

’پاکستان اب طالبان پر اثر و رسوخ کھو چکا ہے‘

طویل عرصے سے واشنگٹن حکومت کا پاکستان پر الزام ہے کہ وہ اپنے قبائلی علاقوں میں ’جہادی گروہوں‘ کو تعاون فراہم کرتا ہے، جو سرحد پار افغانستان میں کیے جانے والے حملوں میں امریکی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ نے اسی تناظر میں اسلام آباد کی طرف زیادہ جارحانہ انداز اپنایا۔ اگست میں ہی ٹرمپ نے کہا کہ امریکی حکومت پاکستان کو لاکھوں ڈالرز ادا کر رہی ہے جبکہ جواب میں پاکستان ایسے دہشت گردوں کو تعاون فراہم کر رہا ہے، جن کے خلاف واشنگٹن حکومت لڑ رہی ہے۔

چھ ہفتے قبل کی اس بیان بازی کے بعد اب امریکی موقف میں کچھ لچک پیدا ہوئی ہے۔ امریکی وزیر دفاع میٹس نے رواں ہفتے ہی کانگریس کو بتایا کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی ایک اور کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پرکھا جائے گا کہ آیا پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ دوسری طرف پینٹاگون کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ میٹس کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کی افواج کے مابین  معمول کے تعلقات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

اسی اثناء پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف اپنے دورہ امریکا کے دوران غیرمتزلزل نظر آئے۔ انہوں نے ایسے امریکی الزامات کو ’کھوکھلا‘ قرار دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے ایسے تمام تر الزامات کو ’ناقابل قبول‘ بھی قرار دیا۔ خواجہ آصف نے کہا، ’’ستر سال پرانے دوست ملک کے ساتھ اس طرح بات کرنا مناسب نہیں۔‘‘ انہوں نے ٹلرسن کے دورہ پاکستان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو خطے میں قیام امن کی خاطر مل کر کام کرنا چاہیے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ عوامی سطح پر سخت لہجہ اختیار کرنے کے بعد امریکی حکام سے نجی ملاقاتوں میں پاکستانی حکام نے یہ شکایت بھی کی کہ حقانی نیٹ ورک یا دیگر جنگجو گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے امریکا نے کوئی  ٹھوس درخواست نہیں کی۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو میں خواجہ آصف نے تو برملا کہا کہ واشنگٹن حکومت بتائے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ پاکستانی حکومت امریکا کے ساتھ تعاون پر تیار ہے۔

کئی مبصرین نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ کے حالیہ دورہ افغانستان کو بھی اہم قرار دیا ہے۔ اس پیش رفت کو دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے حوالے سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن متعدد ناقدین کے خیال میں جنرل باجوہ کے اس دورے سے کوئی بڑی امید نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ یہی ناقدین کئی دہائیوں سے اس طرح کے دوروں اور مذاکراتی ادوار کو دیکھ رہیں ہیں، جن کا ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔