سربرینیتسا کے قتل عام کے 17 سال مکمل: سینکڑوں مسلمانوں کی باقیات دریافت
11 جولائی 2012یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کے بدترین قتل عام یعنی بوسنیا ہرزیگووینا میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سانحے کے 17 سال مکمل ہونے کے موقع پر 520 مسلمانوں کی باقیات ملی ہیں۔ بوسنیا کے مسلمان سربرینیتسا میں ان باقیات کی تدفین کی سوگوار تقریب میں حصہ لینے کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔
1995ء گیارہ جولائی کے قریب سربرینیتسا میں نسل کُشی کے خوفناک واقعے میں ہزاروں مسلمان نوجوانوں اور مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ ان میں سے بہت سے ہلاک شدگان کی باقیات بعد کے سالوں میں دریافت ہوئیں۔ اس قتل عام کے 17 سال بعد 520 مسلمانوں کی جو باقیات ملی ہیں انہیں سربرینیتسا کے نزدیک ایک شہر میں آج بُدھ کو سپرد خاک کیا جا رہا ہے۔ اس شہر کو علامتی طور پر مقامی زبان میں جو نام دیا گیا ہے اُس کا مطلب بھی ’ قتل عام‘ ہے۔ تابوت میموریل سینٹر پہنچائے جا چکے ہیں اور ان باقیات کو دفنانے کے لیے قبر کھودی جا چکی ہے۔
یہ تمام منظر اُن ہزاروں لواحقین کے لیے نہایت دل خراش ہے جن کے قریبی رشتہ دار سربرینیتسا کے قتل عام میں اُن سے جدا ہو گئے تھے۔ آج کی اس سوگوار تقریب میں شرکت کرنے والوں کو ممکنہ طور پر طبی امداد کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس لیے میموریل سینٹر کے باہر ایمبولینسیں دکھائی دے رہی ہیں۔
رابعہ ہروستانووچ نے ان سینکڑوں سبز تابوتوں میں اپنے شوہر اور بھائی کی باقیات کو پہچان لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں،’ میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ یہاں ہمیشہ کے لیے بند ہو جاؤں‘۔
سربرینیتسا بوسنیا کا مسمانوں کی اکثریت والا شہر تھا جو اقوام متحدہ کے تحفظ میں تھا۔ اس شہر کو 1992ء سے 1995ء کی بوسنیا جنگ میں سرب فوج کی طرف سے محاصرے میں لے لیا گیا تھا۔ سرب فوج کی قیادت جنرل راتکو ملاڈچ کر رہے تھے۔ ان کی فورسز نے سربرینیتسا پر جولائی 1995ء میں راتوں رات حملہ کیا۔ گھر گھر گھس کر مردوں اور خواتین کو علیحدہ کیا گیا اور چند روز کے اندر اندر آٹھ ہزار نوجوان لڑکوں اور مردوں کو بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ سربرینیتسا میں ڈچ فوجی اقوام متحدہ کی امن فوج کے زیر نگرانی تعینات تھے۔ ان فوجیوں کی تعداد کم تھی اور یہ سربرینیتسا میں ہونے والے نسل کشی کے واقعات میں مداخلت کرنے میں ناکام رہے۔
سربرینیتسا کے اُن تاریخی خوفناک واقعات میں قتل کیے جانے والے مسلمانوں کی لاشیں اب بھی مشرقی بوسنیا کے مختلف علاقوں میں اجتماعی قبروں سے برآمد ہو رہی ہیں۔ باقیات کا پتہ لگانے کا کام اور بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ مجرم اجتماعی قبروں کو کھود کر باقات نکال لیتے ہیں اور انہیں کسی دوسری اجتماعی قبر میں دفن کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے جرم کا کوئی نشان نہیں چھوڑنا چاہتے۔ حالیہ دنوں میں ڈی این اے کے معائنے کے ذریعے جن باقیات کا پتہ لگایا گیا انہیں سربرینیتسا کے قتل عام کی یاد میں منائی جانے والی سوگوار تقریب کے موقع پر ہر سال سربرینیتسا میموریل سینٹر لایا جاتا ہے۔
km/aba (AP)