نیپال نے بھارت سے تعمیراتی سرگرمیاں روکنے کا مطالبہ کر دیا
17 جنوری 2022نیپال کی حکومت نے 16 جنوری اتوار کے روز ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ لمپیادھورا، لیپولیکھ اور کالا پانی جیسے علاقے اس کے ملک کا "اٹوٹ حصہ ہیں" اور بھارت پر زور دیا کہ وہ ان متنازعہ علاقوں میں اپنی تمام تعمیراتی سرگرمیاں فوری طور پر روک دے۔
نیپال نے اپنے بیان میں کیا کہا؟
نیپال کے وزیر اطلاعات و نشریات اور حکومت کے ترجمان گیانیندر بہادر کارکی نے کہا کہ دریائے کالی کے مشرق میں لمپیادھورا، لیپولیکھ اور کالاپانی جیسے علاقوں میں بھارت کی جانب سے سڑکوں کی تعمیر اور توسیع کا کام یکطرفہ طور پر ہو رہا ہے، جسے سفارتی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
نیپالی کابینہ کی میٹنگ کے بعد اس کے فیصلوں سے آگاہ گرتے ہوئے بہادر کارکی نے مزید کہا، "حکومت نیپال حکومت ہند پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ ان تمام یکطرفہ اقدامات، جیسے کہ نیپالی سرزمین سے گزرنے والی کسی بھی سڑک کی تعمیر اور توسیع وغیرہ، کو روکے دے۔"
وزیر نے مزید کہا کہ نیپال کی حکومت، "دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ کو تاریخی معاہدوں، ٹریٹیز، تاریخی دستاویزات نیز نقشوں کی بنیاد پر، نیپال اور بھارت کے درمیان قریبی اور دوستانہ تعلقات کی روح اور جذبات کے مطابق حل کرنے کے لیے پر عزم ہے۔"
نیپالی حکومت کی جانب سے یہ بیانات ایسے وقت میں آئے ہیں، جب ملک کے کئی علاقوں میں بھارت کی طرف سے سرحد پر ہونے والی سڑک کی تعمیر کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ اسی پس منظر میں جمعے کے روز ہی حکمراں نیپالی کانگریس نے ایک بیان جاری کر کے لیپولیکھ کے راستے میں سڑک کی تعمیر کی مخالفت کی تھی۔
اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ کالا پانی، لیپولیکھ اور لمپیادھورا نیپال کے علاقے ہیں، حکمراں جماعت نے بھارت پر زور دیا کہ وہ ان علاقوں میں تعینات اپنے فوجیوں کو فوری طور پر واپس بلا لے اور تاریخی حقائق اور شواہد کی بنیاد پر اعلیٰ سطحی بات چیت کے ذریعے سرحدی تنازعے کو خوش اسلوبی سے حل کرے۔
بھارت کا موقف
نیپال کا یہ رد عمل بھارت کے اس بیان کے ایک روز بعد آيا ہے، جس میں نئی دہلی نے اصرار کیا تھا کہ بھارت اور نیپال کی سرحد پر جاری تعمیرات بھارتی علاقے میں ہیں۔ اس بیان کے مطابق اگر اس پر کوئی تنازعہ ہے بھی تو اسے دو طرفہ دوستی کے جذبے سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
سنیچر کے روز کھٹمنڈو میں بھارتی سفارت خانے کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گيا تھا کہ نیپال کے ساتھ اس کی سرحد پر بھارت کا موقف، "بہت معروف، مستقل اور غیر مبہم ہے اور نیپال کی حکومت کو بھی اس سے آگاہ کیا جا چکا ہے۔"
بھارتی بیان میں کہا گيا، "ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں قائم کردہ بین الحکومتی میکانزم اور چینلز بات چيت کے لیے موزوں ترین ہیں۔ باقی تصفیہ طلب سرحدی مسائل بھی باہمی طور پر متفقہ، دوستانہ اور دو طرفہ تعلقات کی روح کے مطابق حل کیے جا سکتے ہیں۔"
بھارت پہلے بھی یہ واضح کر چکا ہے کہ نیپال جن علاقوں پر اپنا دعوی کر رہا ہے وہ بھارت کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں بھارتی وزارت خارجہ ماضی میں اپنا بیان بھی کئی بار جاری کر چکی ہے۔
تنازعہ کیا ہے؟
بھارت کی پہاڑی ریاست اترا کھنڈ میں سرحد سے ملحقہ لیپو لیکھ، کالا پانی اور لمپیا دھورا کے علاقوں کے حوالے سے بھارت اور نیپال کے درمیان تنازعہ کافی پرانا ہے۔ سن 2020 کے وسط میں نیپال نے اس حوالے سے اپنا ایک نیا نقشہ بھی منظور کیا تھا جس میں ان تمام علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا۔ بھارت ان علاقوں پر اپنا دعوی کرتا ہے اور اس نے اس پر سخت اعتراض بھی کیا تھا۔
نیپال اس سرحدی تنازعے کو حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ جولائی 2000 میں بھی اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور نیپالی وزیر اعظم جے پی کوئرالہ اس پر متفق ہوگئے تھے کہ اس سرحدی تنازعے کوسفارتی چینل کے ذریعہ حل کر لیا جائے گا۔ تاہم اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
سن 2015 میں معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا تھا، جب بھارت اور چین نے نیپال کو نظر انداز کر کے لیپولیکھ کے راستے ایک سڑک کی تعمیر کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ اس پر نیپال کے اعتراض کا دونوں ملکوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم مئی 2020 میں جب بھارتی وزیر دفاع نے وہاں ایک نئی سڑک کا افتتاح کیا تو اس پر نیپال کی حکومت بڑھ گئی تھی۔
بھارت اور نیپال کے درمیان یوں تو تاریخی 'بیٹی اور روٹی‘ کا رشتہ رہا ہے لیکن مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں میں دوری مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
امکان تھا کہ اس بار گجرات میں ہونے والے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے جب نیپالی وزیر اعظم بھارت کا دورہ کریں گے تو بات چیت سے کشیدگی کو ختم کرنے کا موقع مل سکتا ہے ، تاہم کووڈ 19 کی وجہ سے اب وہ پروگرام بھی منسوخ ہو چکا ہے اور مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے نمائندوں کے درمویان کوئی بات چیت بھی طے نہیں ہے۔