سرحدی حملوں کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی
18 ستمبر 2014پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق منگل کی شب افغانستان کی سرحد سے آنے والے شدت پسندوں کے حملے میں چار پاکستانی فوجی اور تین شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے اس پر اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے سینئیراہلکار کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا گیا ۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کے روز دفترخارجہ میں ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتےہوئے کہا کہ منگل کی شب افغان صوبے خوست اور پکتیکا کی جانب سے 90 سے 100 کے قریب شدت پسند پاکستانی علاقے میں حفاظتی چوکی پر حملہ آور ہوئے تھے۔
ترجمان نے کہا، ’’ہم نے احتجاج کیا ہے۔ ہم نے افغانستان کو بہت واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ افغانستان سے دہشت گردوں کی وہ پناہ گاہیں ختم کی جائیں جو مخلتف افغان صوبوں میں موجود ہیں۔‘‘
پاکستانی حکام کے مطابق منگل کی صبح قبائلی علاقے شمالی وزیرستان ایجنسی میں افغانستان کے سرحدی علاقے سے ہونے والے حملے کے بعد شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں تین سکیورٹی اہلکار اور 11 شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔
پاکستان کی جانب سے قبائلی علاقے شمالی وزیر ستان میں پندرہ جون سے شدت پسند طالبان کے خلاف شروع کیے جانے والے آپریشن کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سرحدی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھی۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاک افغان تعلقات کی موجودہ صورتحال دونوں ممالک میں اعتماد کی کمی کے دیرینے مسئلے کا ایک اظہار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر دونوں ممالک بد اعتمادی کا خاتمہ کر لیں تو خطے میں بھی استحکام آسکتا ہے۔ حسن عسکری نے کہا:’’تو اس طرح بجائے اس کے کہ تعاون کر کہ سرحد پار نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جائے۔ افغانستان اپنے مفادات کے حوالے سے بات کرتا ہے، پاکستان اپنے مفادات کے حوالے سے بات کرتا ہے۔ لہذا ان کے تعلقات مزید خراب ہوں گے، جب امریکی یہاں سے جائیں گے، تو افغانستان میں خلفشار بڑھے گا۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء جاری ہے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لئے پاک افغان تعلقات میں پائی جانی والی یہ بد اعتمادی تشویش کا سبب ہے۔