سری لنکا: صدر راجا پکسے ملک سے فرار ہو گئے
13 جولائی 2022سری لنکا کی فضائیہ نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ 73 سالہ صدر گوٹابایا راجا پکسے اپنی اہلیہ اور دو سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ بدھ کی علی الصبح مالدیپ روانہ ہو گئے۔ بعض خبر رساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق وہ مقامی وقت کے مطابق صبح تقریبا ًتین بجے مالدیپ کے دارالحکومت مالے پہنچے۔
کولمبو میں محکمہ امیگریشن کے ایک اہلکار نے بتایا کہ صدر اور ان کی اہلیہ دو محافظوں کے ساتھ سری لنکا کی فضائیہ کے طیارے میں ملک سے روانہ ہوئے۔ ایک دیگر سرکاری ذرائع کے مطابق طیارہ مالدیپ کے دارالحکومت مالے کی طرف روانہ ہوا تھا۔ اس کے بعد ہی سری لنکا کی فضائیہ نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔
راجا پکسے کے ملک سے فرار ہونے کے ساتھ ہی سری لنکا پر کئی دہائیوں سے جاری اس خاندانی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، جو ایک عرصے سے بر سر اقتدار تھا۔ اس سے قبل ہفتے کے روز ان کی رہائش گاہ پر پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے، جس کے بعد انہوں 13 جولائی کو مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد سے ہی وہ روپوش تھے۔
بدھ کی صبح کولمبو میں حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ان کا استعفیٰ ابھی تک پارلیمان کے اسپیکر تک نہیں پہنچا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان کے بھائی اور سابق وزیر خزانہ باسل راجا پکسے بھی ملک چھوڑ چکے ہیں اور باور کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ جا رہے ہیں۔
عوام کا رد عمل
سری لنکا کے صدر کے ملک سے فرار کی خبر سنتے ہی ہزاروں لوگ دارالحکومت کولمبو کی سڑکوں پر نکل آئے۔ بہت سے لوگ شہر کے مرکزی احتجاجی مقام 'گالے فیس گرین' میں جمع ہو گئے جہاں بعض لوگوں نے عام لوگوں کے لیے بنائے گئے عارضی اسٹیج پر کھڑے ہو کر مائیک پر شعلہ انگیز تقریریں کیں۔
بیشتر لوگ اس بات سے خوش تھے کہ ان کی احتجاجی مہم رنگ لائی اور وہ اس واقعے کو عوامی جد و جہد کی جیت قرار دے رہے ہیں۔
ملک گزشتہ کئی مہینوں سے شدید معاشی بحران سے دو چار ہے اور سری لنکا کے لوگ اس کے لیے صدر راجا پکسے کی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جو برسوں سے اقتدار میں تھے۔ گزشتہ کئی ماہ سے عوام روزانہ بجلی کی کٹوتی، ایندھن کی شدید قلت، خوراک اور ادویات جیسی بنیادی چیزوں کی کمی کا سامنا کرتی رہی ہے۔
صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے راجا پکسے کو کس بھی قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نئی انتظامیہ کی جانب سے گرفتاری کے امکان سے بچنے کے لیے عہدہ چھوڑنے سے پہلے ہی بیرون ملک فرار ہونا چاہتے تھے۔
تاہم صدر کے فرار ہونے سے سری لنکا میں اقتدار کے ایک ممکنہ خلا کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے اور چونکہ ملک کو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اس لیے اسے اس مالیاتی تباہی سے نکالنے کے لیے فوری طور پر ایک فعال حکومت کی اشد ضرورت ہے۔
ایک طویل سیاسی سفر کا خاتمہ
ایک دہائی سے بھی زیادہ پہلے راجا پکسے نے اپنے بڑے بھائی کی حکومت میں وزیر دفاع کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تھا اور اس دوران انہوں نے ملک میں طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی کو ختم کرنے میں کافی اہم مدد کی تھی۔ عسکریت پسند تنظیم ایل ٹی ٹی ای کے خاتمے کے بعد سن 2019 میں سلامتی اور استحکام کے وعدے کے ساتھ ہی وہ ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
تاہم اس دوران ٹیکسوں میں کٹوتیوں کے ایک سلسلے نے حکومتی محصولات کو تقریبا ًختم کر دیا اور ملک میں ایندھن، خوراک اور ادویات ختم ہونے لگیں کیونکہ ملک ان کی درآمدات کا مزید متحمل نہیں تھا۔
حکومت پر معاشی نااہلی کا الزام لگایا گیا اور رائے عامہ گوٹابایا اور وسیع تر راجا پکسے خاندان کے خلاف ہوتی گئی تھی جو تقریباً 20 برسوں سے سری لنکا کی سیاست پر حاوی رہا تھا۔
اس سے قبل مئی میں ہی مہندا راجا پکسے نے وزیر اعظم کے عہدے سے اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب مارچ میں حکومت کے خلاف شروع ہونے والے بڑے پیمانے پر احتجاج مظاہرے پرتشدد ہونے لگے تھے۔
گوٹابایا پر جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کے بھی الزام لگائے گئے، جنہیں اپنے عہدے پر رہتے ہوئے گرفتاری سے استثنیٰ حاصل تھا۔ گزشتہ جمعہ کے بعد سے ہی وہ عوام میں نظر نہیں آئے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حراست میں لیے جانے کے امکان سے بچنے کے لیے عہدہ چھوڑنے سے پہلے بیرون ملک جانا چاہتے تھے۔
ملک کی پارلیمنٹ 20 جولائی کو نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کروانے والی ہے تاہم اس سے قبل نئے وزیر اعظم اور نئی کابینہ کا بھی فیصلہ ہونا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)