سری لنکا میں خانہ جنگی کے بعد پہلے بلدیاتی انتخابات
22 جولائی 2011انتخابی مبصرین اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا ہے مگر اب بھی خوف و ہراس اور ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ عام ہے۔ 29 برس بعد پہلی بار علیحدگی پسند تامل ٹائیگرز کے خود اعلانیہ دارالحکومت کیلی نوچی اور ملائی تیوو کے عوام مقامی کونسلروں کا انتخاب کریں گے۔
شمالی علاقوں سے حمایت حاصل کرنے کے خواہاں صدر مہندا راجہ پاکسے نے رواں ہفتے علاقے کا دور ہ کیا، جس دوران انہوں نے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا اور مستقبل میں ایسے مزید منصوبے شروع کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ ملک کی سنہالی اکثریت سے تعلق رکھنے والے راجہ پاکسے نے تامل زبان میں پہلے سے رٹی رٹائی تقریر میں کہا،’’آپ کے صوبے کے لیے دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ رقم مختص کی گئی ہے۔ سری لنکا میں آئندہ گروہی سوچ اور تنگ ذہنی پر مبنی سیاست کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔‘‘
مہندا راجہ پاکسے کی حکومت کی زیر قیادت فوجی کارروائی میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کا خاتمہ کر دیا گیا تھا اور مئی 2009 کی فیصلہ کن لڑائی میں تامل باغیوں کا سری لنکا کی تامل اقلیت کے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کا خواب چکنا چور ہو گیا تھا۔
تاہم تشدد کے واقعات اب بھی موجود ہیں۔ انتخابی مبصرین نے سرکاری وسائل سے انتخابی مہم چلانے اور تشدد کے استعمال سمیت مختلف خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی ہے۔
کمپین فار فری اینڈ فیئر الیکشنز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیرتھی تھیناکون نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’سب کو علم ہے کہ جافنا میں ان خلاف ورزیوں کے پیچھے فوج کے بعض حصوں اور سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے۔‘‘
حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو شکایت ہے کہ انہیں علاقے تک زیادہ رسائی حاصل نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ووٹروں کو ڈرا دھمکا کر انہیں ووٹ ڈالنے سے روکا جائے گا۔ سابق LTTE کے سیاسی دھڑے تامل نیشنل الائنس کے رکن پارلیمان ایم سماتھرن نے روئٹرز کو بتایا، ’’فوجی گھر گھر جا کر لوگوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ سرکاری پارٹی کو ووٹ ڈالیں۔‘‘
سری لنکا کے صدر راجہ پاکسے کو تامل نیشنل الائنس کے لیے قابل قبول سیاسی مفاہمت کا عمل شروع کرنے اور جنگ کے آخری دنوں میں جنگی جرائم کے مبینہ ارتکاب کی تحقیقات کرانے کے سلسلے میں مغرب کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک