سری لنکا کے معاشی بحران میں دھیرے دھیرے آتی بہتری
4 فروری 2024سری لنکا کے یوم آزادی کے موقع پر اپنے روایتی مگر مختصر خطاب میں صدر رانیل وکرما سنگھے نے اتوار چار فروری کے روز 'ملک کے دیوالیہ ہو جانے کے وقت کا‘ ذکر کیا اور کہا کہ حکومتی اقدامات سے اب حالات رفتہ رفتہ بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ 46 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض کے شکار ملک سری لنکا کے زرمبادلہ کے ذخائر سن 2022 میں ختم ہو گئے تھے، جس کے بعد وہ ایندھن، خوراک اور دیگر ضروری درآمدات کے لیے مالی ادائیگیوں کے قابل نہیں رہا تھا۔
سری لنکا میں منشیات کے خلاف متنازعہ کریک ڈاؤن میں وسعت
سری لنکا میں منشیات کے خلاف ملک گیر آپریشن، پندرہ ہزار ملزمان گرفتار
اسی تناظر میں سری لنکا کو کئی ماہ کے داخلی انتشار کا سامنا رہا تھا ، جو اس وقت صدر کے عہدے پر فائز گوتابایا راجاپاکسے کی برطرفی پر منتج ہوا تھا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈنے گزشتہ برس مارچ میں سری لنکا کے لیے چار سال پر محیط اپنے بیل آؤٹ پیکج کی پہلی قسط 2.9 بلین ڈالر کی صورت میں جاری کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سری لنکا میں ٹیکسوں اور مہنگائی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
صدر وکرماسنگھے نے کہا، ''اس پورے سفر میں، بہت سے مشکل حالات آئیں گے تاہم بوجھ دھیرے دھیرے کم ہو گا اور معیشت کا پہیہ پھر سے چلنے لگے گا۔‘‘
آئی ایم ایف کی شرائط کے تناظر میں سری لنکا میں حکومت نے ٹیکسوں میں اضافہ کیا تھا جب کہ گزشتہ ماہ مختلف اشیائے صرف کی قیمتوں میں چھ فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔ سری لنکا کے مرکزی بینک کے مطابق دسمبر میں افراط زر میں چار فیصد اضافہ ہوا تھا، جب کہ جنوری میں چھ اعشاریہ چار فیصد تک بڑھوتی دیکھی گئی، تاہم اب بھی یہ حالات سن 2022 میں معاشی طوفان کے عروج کے وقت کے مقابلے میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہیں۔ تب سری لنکا میں افراط زر کی شرح ستر فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
ملکی صدر رانیل وکرماسنگھے نے اسی تناظر میں کہا کہ انتہائی ضروری ہے کہماضی کی غلطیوں پر گہری نظر رکھی جائے اور انہیں کسی صورت نہ دہرایا جائے۔
ع ت / م م (اے ایف پی)