سری نگر میں ایک مرتبہ پھر کرفیو نافذ
9 اگست 2010بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دو ہفتوں کے بعد کاروباری مراکز اور دکانیں کھلی تھیں اور زندگی کے دوبارہ معمول پر آنے کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے لیکن گزشتہ دنوں مظاہروں کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کی ہلاکت کے بعد سری نگر میں عوامی زندگی ایک مرتبہ پھر کرفیو کی نذر ہوگئی۔ سری نگر پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والا شخص سرنگر کا رہائشی تھا۔ وہ گزشتہ ہفتے ایک خونریز احتجاجی مظاہرے کے دوران زخمی ہوا تھا اور اتوار اور پیر کی درمیانی شب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
اس واقعے کے بعد حکام نے شہر میں فوری طور پر دوبارہ کرفیو نافذ کر دیا۔ کشمیر میں ایک پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکام نے یہ فیصلہ مظاہروں میں مزید شدت کے خوف سے کیا ہے۔
مسلم اکثریتی آبادی والے اس خطے میں گیارہ جون سے حکومت مخالف مظاہروں میں اس وقت شدت آ گئی تھی، جب ایک نوجوان پولیس کی جانب سے فائر کئے گئے آنسو گیس کے ایک شیل کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے کشمیر میں اب تک سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً پچاس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ صرف گزشتہ دس دنوں کے دوران 33 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر نوجوانوں تھے۔
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے نئی دہلی حکام سے ریاست میں مزید مسلح دستے بھیجنے کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جا سکے۔ عمر عبداللہ نے ایک ہفتہ قبل ہی بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ایک ہنگامی ملاقات بھی کی تھی، جس میں وادی میں مسلسل قابو سے باہر ہوتی جا رہی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
بھارتی حکام وادیء کشمیر کے حالات میں خرابی کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کر رہے ہیں جبکہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی کئی سالوں سے جاری مبینہ زیادتیوں کا رد عمل ہے۔ وادیء کشمیر میں گزشتہ بیس برسوں سے علیحدگی پسندی کی تحریک جاری ہے اور اس دوران وہاں تقریباً 47 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک