سزائے موت کے بعد عمر قید کی سزا بھی
18 جون 2016مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو ہفتہ 18 جون کو قاہرہ میں ایک عدالت نے سزائے عمر قید سنا دی، جب کہ اسی مقدمے میں چھ افراد کو موت کی سزا بھی سنائی گئی۔ مرسی پر الزام تھا کہ انہوں نے حساس ملکی راز افشا کر کے غداری کا ارتکاب کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب سابق صدر کو عدالت نے سزا سنائی ہو۔ ان کو موت کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ واضح رہے کہ مرسی سن دو ہزار گیارہ میں اس وقت اقتدار میں آئے تھے جب ان کو عوامی ووٹوں کے ذریعے چنا گیا تھا۔ اس سے قبل سابق آمر حسنی مبارک کے خلاف ملک گیر پیمانے پر عوامی احتجاج اور جمہوری تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔ تاہم قدامت پسند نظریات کے حامل محمد مرسی کو فوج نے سن دو ہزار تیرہ میں اقتدار سے معزول کر دیا، جس کے بعد فوجی قیادت نے مرسی کے حامیوں اور دائیں بازو کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک اخوان کے کئی رہنماؤں کو سزائیں دی جا چکی ہیں اور جماعت کے کارکنان زیر عتاب ہیں۔
ہفتے کے روز مرسی کو جو سزا سنائی گئی اس کا تعلق اس غیر قانونی تنظیم سے تھا جو کہ استعاثہ کے مطابق پندرہ برسوں سے ’’ریاستی سکیورٹی سے متعلق دستاویز چرا رہی تھی۔‘‘
تاہم مرسی کو اس مقدمے میں سزائے موت اس لیے نہیں دی گئی کہ ان پر یہ الزام ثابت نہ ہو سکا کہ انہوں نے یہ دستاویزات قطر کے حوالے کی تھیں۔ جن افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے ان پر یہ الزام ثابت ہوا ہے۔
مرسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ملکی فوجی قیادت دانستہ طور پر اخوان اور اس کی قریبی جماعتوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرسی اور اخوان المسلمون کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔
تاہم مرسی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد مصر کے حالات ابتر ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق فوجی حکومت طاقت کے ذریعے مسائل پر قابو پانا چاہتی ہے تاہم سیاسی خلا کے باعث جہادی تنظیموں، بہ شمول ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو مصر میں قدم جمانے کا موقع مل گیا ہے۔