سعودی جیلیں: ہزاروں قیدی کسمپرسی کی حالت میں
26 اگست 2011حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم عمل غیر جانبدار گروپوں کے اندازوں کے مطابق سعودی عرب کی خصوصی جیلوں میں پڑے ہوئے قیدیوں کی تعداد کم از کم بارہ ہزار ہے جبکہ یہ تعداد 30 ہزار تک بھی ہو سکتی ہے۔ اِن خصوصی جیلوں میں اُن قیدیوں کو رکھا گیا ہے، جنہیں قومی سلامتی سے متعلق کیسوں میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سعودی عرب میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے ہیومن رائٹس فرسٹ کے سربراہ ابراہیم المکاتیب کے اندازوں کے مطابق سعودی جیلوں میں قومی سلامتی سے جڑے کیسز میں گرفتار کیے گئے قیدیوں کی تعداد بارہ سے لے کر پندرہ ہزار تک ہے۔
اِس کے برعکس سعودی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ’عسکریت پسندی‘ سے جڑے کیسز میں اُس نے 5696 افراد کو حراست میں لے رکھا ہے، جن میں سے پانچ ہزار سے زیادہ افراد کو عدالتوں میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان منصور الترکی نے زور دے کر یہ بھی کہا کہ ’ملک میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں ہے‘۔ ظاہر ہے، جس ملک میں سیاسی جماعتیں ہی نہ ہوں یا کوئی سیاسی جمہوری عمل ہی نہ ہو، وہاں ’سیاسی جرم‘ کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔
سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست ہے، جہاں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ حقوق انسانی کے کارکنوں کا کہنا یہ ہے کہ ملک کی اِس قانونی صورتِ حال میں سکیورٹی فورسز من مانے طریقے سے گرفتاریاں عمل میں لا سکتی ہیں، جج انفرادی طور پر شرعی قوانین کی تشریح کرتے ہیں اور بہت سے مقدمات میں قیدیوں کو وکیل تک کرنے کی سہولت نہیں دی جاتی۔
بے لگام سکیورٹی فورسز ہی وہ بڑی وجہ تھیں، جنہیں بنیاد بنا کر اس سال پہلے تیونس اور پھر مصر میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے تاہم ریاض حکومت کا اصرار ہے کہ سعودی عرب میں نافذ اسلامی نظام اور عوام میں فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی مقبولیت کی وجہ سے ایسا نہیں ہو گا۔
لندن میں قائم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اندازہ ہے کہ سعودی عرب کی جیلوں میں پڑے ہوئے قیدیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جن میں سے کچھ کو حکومتی اداروں پر تنقید کی پاداش میں اور دیگر کو سلامتی کی وجوہات کی بناء پر گرفتار کیا گیا۔ زیادہ تر کو گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف توقیر