1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

سعودی عرب: ’ایمیزون کےگوداموں میں کارکنوں کی خوفناک صورتحال‘

15 اکتوبر 2023

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب میں ایمیزون کے گوداموں میں کام کرنے والے تارکین وطن ’’ناگفتہ بہ‘‘ اور خوفناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4XORq
Symbolbild Amazon in Indien
تصویر: Ashish Vaishnav/Zuma/imago images

 

 سعودی عرب  میں ایمیزون کے گوداموں میں کام کرنے والے تارکین وطن کارکنوں کو ہر وقت ملازمت کے دوران حفاظتی خطرات اور انتہائی مشکل سے کمائی ہوئی اجرت کی چوری تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے کہا ہے کہ لیبر سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے اُن ملازمین کو سخت جرمانے عائد کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے جو اپنے آجر کے ساتھ طے شدہ  معاہدے کی مدت کم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح یہ کارکن مؤثر طریقے سے خلیجی ریاست میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ایمنسٹی کے اقتصادی اور سماجی انصاف کے شعبے کے سربراہ اسٹیو کوک برن نے کہا ہے کہ ’’کارکنوں کا خیال تھا کہ وہ ایمیزون کے ساتھ ایک سنہری موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، تاہم اس کے بجائے انہیں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے بہت سے لوگ صدمے سے دوچار ہوئے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''جن لوگوں کا ہم نے انٹرویو کیا ان میں سے بہت سے لوگوں کو جس شدت کی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے مزدوروں کے استحصال کے مقاصد کے لیے انسانی اسمگلنگ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘

USA Romeoville | Amazon Unternehmen | Marijuana Testung
سعودی عرب میں ایمیزون کے گوداموں میں کام کرنے والے زیادہ تر تارکین وطن ہیںتصویر: Brian Cassella/Chicago Tribune/TNS/picture alliance

ایمنسٹی نے کہا کہ اس رپورٹ میں نیپال سے تعلق رکھنے والے 22 مردوں  کی روداد سے اخذ کیے گئے حقائق شامل ہیں، جنہوں نے 2021ء  تک سعودی  دارالحکومت ریاض یا بحیرہ احمر کے ساحلی شہر جدہ میں گوداموں میں کام کیا۔

یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے ‫پاکستانی‬

کوک برن کے مطابق ایمنسٹی کو شبہ ہے کہ ''اسی طرح کے خوفناک اور ناروا سلوک کا شکار  سینکڑوں مزید کارکن بھی ہو رہے ہیں۔‘‘ ایمنسٹی نے بھرتی کرنے والے ایجنٹس اور دو سعودی لیبر سپلائی کمپنیوں پر تارکین وطن مزدوروں کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا ہے، جو سمجھتے تھے کہ وہ ایمیزون کے ذریعے براہ راست ملازمت کریں گے اور ان کارکنوں نے اس بھرتی کی فیس ادا کرنے کے لیے بھاری قرضے بھی لیے۔

تاہم ایمنسٹی نے کہا کہ سعودی عرب پہنچنے پر انہیں ''انتہائی گندی اور بھیڑ سے بھری رہائش کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض اوقات انہیں کھٹمل جیسے کیڑوں تک کا بھی تجربہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی مسلسل نگرانی اور ناکافی آرام کی وجہ سے کام کے خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض اوقات وہ زخمی یا بیمار ہو جاتے ہیں۔‘‘

Pakistan Islamabad | Warteschlange vor Botschaft Afghanistan
سعودی عرب میں غیر ملکی کارکنوں کے ساتھ حکام کا انتہائی ناروا سلوک ہوتا ہےتصویر: AAMIR QURESHI/AFP

ایمنسٹی انٹرنیشنل  کے مطابق غیر ملکی کارکنوں کے لیے سعودی مملکت کے''نظام کفالہ‘‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر مزدور گودام کی ملازمتیں چھوڑنا چاہیں تو انہیں شدید جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور ’’مفرور‘‘ ہونے کے الزام میں انہیں ممکنہ گرفتاری کا خطرہ رہتا ہے۔  ایمنسٹی نے مزید کہا کہ کچھ کارکن تو حالات سے تنگ آکر’’خودکشی تک کا سوچنے لگتے ہیں۔‘‘

دیو کے نام سے جانے جانے والے ایک کارکن نے حقوق انسانی گروپ کو بیان دیتے ہوئے کہا ’’میں نے دیوار سے کودنے کی کوشش کی، میں نے خود کو مارنے کی کوشش کی۔ میں نے اپنی ماں کو بتایا اور اس نے کہا کہ ایسا نہیں کرو، ہمیں قرض ملے گا۔ اسے قرض لیے آٹھ ماہ ہوچکے ہیں اور اُس پر اب سود بڑھ رہا ہے۔‘‘

 ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایمیزون کمپنی سے مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ کارکنوں کو معاوضہ دے اور اپنی سپلائی چین کے ساتھ کام کرنے کے حالات کی تحقیقات کرائے۔

ک م/ ع ب(اے ایف پی)