1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب بمقابلہ روس اور تیل کی قیمتوں کی جنگ

10 مارچ 2020

تیل پیدا کرنے والی دو بڑی طاقتوں سعودی عرب اور روس نے وسیع مالی وسائل جمع کر لیے ہیں، جو انہیں تیل کی قیمتوں کی طویل جنگ لڑنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ درد اور اعصاب کی اس جنگ میں کون پہلے ہار مانتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Z9yt
Symbolbild: Ölpreis
تصویر: picture-alliance/AP/H. Jamali

سعودی عرب نے خام تیل کی قیمت کم کرنے کے ساتھ یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ اس کی پیداوار میں اضافہ کر دے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں ایک تہائی گر گئی تھیں۔ دونوں ملکوں کی سرکاری آئل کمپنیوں سعودی آرامکو اور روسنیفٹ کے شیئرز بھی بری طرح نیچے گرے۔

دنیا کے ان دو بڑے تیل برآمد کنندگان نے کسی بھی 'معاشی جھٹکے‘ سے بچنے کے لیے تقریبا پانچ پانچ سو بلین ڈالر کے ذخائر جمع کر لیے ہیں۔ پیر کے روز ماسکو حکام کا کہنا تھا کہ اگر تیل کی قیمتیں فی بیرل پچیس سے تیس ڈالر تک بھی گر جائیں تو بھی وہ چھ سے دس برس تک اس کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔

روسی ذرائع کے مطابق روس تیس ڈالر فی بیرل برداشت تو کر سکتا ہے لیکن اسے خام تیل سے ہونے والی آمدنی کا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے مزید خام تیل فروخت کرنا پڑے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ جنگ جتنی طویل ہوتی جائے گی، دونوں ملکوں کو نقصان بھی اتنا زیادہ ہو گا اور انہیں مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ تاہم دوسری جانب ان دونوں ممالک کی اس کشمکش سے فائدہ پاکستان جیسے ان ممالک کو ہو گا، جو خام تیل کے خریدار ہیں۔

Argentinien G20 Gipfel - Putin und bin Salman
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Pisarenko

اس مسئلے سے آگاہی رکھنے والے ذرائع کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تیل کی پیداوار بڑھانے کا حکم اس وقت دیا، جب روس نے خام تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کی اس تجویز کو مسترد کیا، جس میں کورونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لیے پیداوار میں کمی لانے کی تجویز دی گئی تھی۔

روس کے مقابلے میں سعودی عرب کے پاس بھی زرمبادلہ کے تقریبا پانچ سو ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کی سالانہ معاشی ترقی کے حساب سے یہ ذخائر تقریبا پچیس فیصد بنتے ہیں اور سعودی عرب مزید مالی قرضے حاصل کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ سعودی عرب سن دو ہزار سولہ کے بعد سے تیل کی کم قیمتوں کے اثرات محدود کرنے کے لیے ایک سو ارب ڈالر سے زائد کے قرضے حاصل کر چکا ہے۔

ماسکو ایکسچینچ سپروائزری بورڈ کے سربراہ اولیگ ویوگن کا کہنا ہے کہ اس 'تیل کی جنگ‘ میں روس میں نہ صرف افراط زر کی شرح بڑھ جائے گی بلکہ شرح سود میں بھی اضافہ یقینی ہے۔ دوسری جانب میکرو ایڈوائزری کنسٹلنسی کے ڈائریکٹر کرس ویفر کا کہنا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ماسکو اوپیک کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کر لے لیکن ایسا شاید موسم خزاں کے بعد ہی ہو۔ تب تک تیل کی قیمتیں کم ہی رہنے کی توقع ہے۔  

ا ا / ع ت (روئٹرز)