’سعودی عرب جرمنی میں انتہاپسندی برآمد کر رہا ہے‘
9 جولائی 2017برطانیہ میں خونریز دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے وہاں بنیاد پرستی کے اسباب جاننے کی زیادہ سے زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسی حوالے سے برطانوی تھنک ٹینک ہنری جیکسن سوسائٹی نے برطانیہ میں اسلام کی انتہا پسندانہ اقسام اور ان کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔
اس رپورٹ میں واضح طور سعودی عرب کو امداد فراہم کرنے والا ملک قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے گزشتہ پچاس برسوں کے دوران 76 ارب یورو وہابی نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کیے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق وہابیت ہی دنیا بھر میں شدت پسندی اور جہادی تحریکوں کے لیے نظریاتی بنیاد فراہم کر رہی ہے۔
جرمنی میں فرینکفرٹ ریسرچ سینٹر فار گلوبل اسلام نامی ادارے کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سوزانے شروئٹر کے مطابق ان کے لیے یہ اعداد و شمار حیران کن نہیں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ طویل عرصے سے معلوم ہے کہ سعودی عرب اپنے ریاستی وہابی نظریات برآمد کرتا ہے اور یہ نام نہاد "اسلامک اسٹیٹ یا داعش" کے نظریات بھی ان سے ملتے جلتے ہیں، ’’صرف پیسہ ہی بیرون ملک نہیں بھیجا جاتا، پروپیگنڈا مواد اور تنظیمی ڈھانچے کو چلانے کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔‘‘
سعودی عرب کی طرف سے وہابی نظریات کے بیرون ملک فروغ کے حوالے سے ڈاکٹر سوزانے شروئٹر کا مزید کہنا تھا، ’’وہابی نظریات کے فروغ میں انقلاب ایران کے بعد تیزی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایرانی شیعہ انقلاب نے سعودی عرب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جب ایران نے اپنے شیعہ نظریات برآمد کرنا شروع کیے تھے تو سعودی عرب نے اسی وقت خطرہ محسوس کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘
ڈاکٹر سوزانے شروئٹر کہتی ہیں کہ جس برس انقلاب ایران آیا، اسی برس انتہاپسندوں نے مکہ کی مقدس مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد سعودی عرب نے دفاعی کی بجائے جارحانہ پالیسی اختیار کر لی تھی، ’’تب سعودی عرب نے فیصلہ کیا تھا کہ اب وہ اپنے نظریات برآمد کریں گے۔‘‘
جرمن پروفیسر کے مطابق اس طرح سعودی حکام اپنے ملک کے انتہاپسندوں کو بھی بتانا چاہتے تھے کہ وہ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ’’اس کے بعد سعودی عرب نے ایشیا، افریقہ اور یورپ کے کچھ حصوں میں اپنے رابطہ کاروں اور تنظیموں کے ذریعے وہابی نظریات کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔‘‘
یورپ میں خاص طور پر سابق یوگوسلاویہ میں سعودی عرب نے امداد فراہم کرنا شروع کی، جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان خانہ جنگی کے واقعات پیش آ چکے تھے۔ اسی طرح اسلام قبول کرنے والے جرمنی کے سب سے مشہور سلفی مبلغ پیئرے فوگل کو بھی مکہ میں تعلیم کے لیے وظیفہ فراہم کیا گیا تھا۔
جرمن خفیہ اداروں کے مطابق سلفی مبلغ پیئرے فوگل اور وہابی نظریات سے متاثر درجنوں مسلمان لڑکے اور لڑکیاں داعش جیسی تنظیموں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔