’سعودی عرب سزائے موت پانے والے زیادہ تر شیعہ تھے‘
24 اپریل 2019ہیومن رائٹس واچ ( ایچ آر ڈبلیو) کے محقق ایڈم کوگل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے تینتیس کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔‘‘ ایچ آر ڈبلیو کے مطابق جن افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا ہے، ان میں عبدالکریم الہوج بھی شامل ہیں۔ گرفتاری کے وقت الہوج کی عمر سولہ برس تھی۔
اس تنظیم کے مطابق ان میں سے گیارہ کو ایران کے لیے جاسوسی کرنے جبکہ کم از کم چودہ کو حکومت مخالف مظاہروں میں ملوث ہونے کے جرم میں یہ سزائیں سنائی گئی تھیں۔ یہ مظاہرے2011ء اور 2012ء میں ملک کے مشرقی صوبے میں ہوئے تھے۔
انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا ہے کہ جن افراد کو سزائے موت دی گئی ہے ان میں سے زیادہ تر شیعہ تھے۔ ایمنسٹی کے مطابق، ’’انہیں غیر شفاف انداز میں چلنے والے ایک ایسے مقدمے میں قصور وار قرار دیا گیا، جو بین الاقوامی معیارات کے خلاف تھا اور تشدد کے ذریعے ان سے اقبال جرم کرایا گیا تھا۔‘‘
سعودی وزارت داخلہ کے مطابق ان افراد پر فرقہ واریت کو فروغ دینے جیسے الزامات تھے اور ان سعودی شہریوں کو 'دہشت گردی‘ کے واقعات میں ملوث ہونے کے جرم میں موت کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
مزید یہ کہ ان مجرموں کی سزاؤں پر عمل درآمد دارالحکومت ریاض، مکہ، مدینہ، وسطی صوبے قاسم اور اُس مشرقی صوبے میں کیا گیا، جہاں ملکی شیعہ اقلیت کی آبادی کافی زیادہ ہے۔
ایمنسٹی کے مشرق وسطی کے ریسرچ ڈائریکٹر لن مالوف نے کہا کہ موت کی یہ سزائیں اس امر کی جانب ایک اور خوفناک اشارہ ہیں کہ کس طرح موت کی سزا کو شیعہ اقلیت کے اندر ناقدانہ سوچ رکھنے والوں کو کچلنے کے لیے ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی ( ایس پی اے) کے مطابق رواں برس کے دوران اب تک ایک سو سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ سعودی عرب میں شیعہ آبادی کی تعداد کے حوالے سے کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم کہا جاتا ہے کہ 32 ملین کی آبادی والے اس ملک میں دس سے پندرہ فیصد شیعہ آباد ہیں۔