سعودی عرب شدت پسندوں کی مساجد کی مدد بند کرے، گابرئیل
6 دسمبر 2015سعودی عرب پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ دنیا بھر شدت پسند نظریات کی حامل مساجد کی مالی معاونت کرتا ہے اور یہی مساجد جہادیوں کی بھرتی کی فیکٹریوں کا کام سرانجام دیتی ہیں۔ اتوار کے روز اپنے بیان میں گابرئیل نے کہا، ’’سعودی عرب سے، پوری دنیا میں وہابی مساجد کو مالی معاونت فراہم ہوتی ہے۔‘‘ وہابی سے گابرئیل کی مراد سخت ترین سنی عقائد کے حامل نظریات ہیں، جن کا پرچار 18ویں صدی میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نے شروع کیا تھا اور وہی سعودی ریاست کے معاون بانی بھی تھے۔
اتوار کو جرمن اخبار بلڈ ام زونٹاگ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں زیگمار گابرئیل نے کہا، ’’جرمنی میں بہت سے ایسے شدت پسند مسلمان، جو انتہائی خطرناک سمجھے جاتے ہیں، انہی کمیونٹیز سے تعلق رکھتے ہیں‘‘
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ایسے شدت پسند نظریات کو بڑھوتی دے کر سعودی عرب خود کو عالمی سطح پر تنہا کر لے گا۔ یہ بات اہم ہے کہ سعودی عرب شامی تنازعے کے حل میں کلیدی کردار کا خواہاں ہے اور بشارالاسد کے حامی سنی باغیوں کی مدد میں پیش پیش رہا ہے۔
نائب چانسلر اور وزیراقتصادیات گابرئیل نے کہا، ’’اس وقت سعودی حکام کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اب چیزوں کو صرف نظر کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔‘‘
وہابی نظریات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کے بعد مسلمانوں کی پہلی نسل کی تقلید کا دم بھرتے ہیں اور اسامہ بن لادن سمیت زیادہ تر شدت پسندوں اور دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ اور اس کےحامیوں کا تعلق انہی نظریات کے پیروکاروں سے ہے۔
گابرئیل نے زور دیا کہ جرمنی میں شدت پسندوں کے مساجد کے خلاف سخت کارروائی کی جانا چاہے۔ ’’شدت پسند اور انتہاپسند سلافیوں کی مساجد میں پیدا ہو رہے ہیں اور یہ خطرہ جرمنی میں دائیں بازوں کے شدت پسندوں سے کم نہیں ہے۔‘‘
جرمنی کی دوسری سب سے بڑی جماعت ایس پی ڈی کے پارلیمانی گروپ کے سربراہ ٹوماس اوپرمان نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ جرمن دستور میں درج بنیادی انسانی آزادی کے خلاف تبلیغ کرنے والوں کے خلاف اقدامات اٹھائے جانا چاہیئں۔ جرمن اخبار ویلٹ ام زونٹاگ سے بات چیت میں اوپرمان نے کہا، ’’ہم جرمنی میں سعودی مدد سے وہابی خیالات اور نظریات کا پرچار کرنے والی مساجد کے خلاف اقدامات کریں گے اور انہیں بند کیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہابی ازم نے دہشت گرد گروہ اسلامک اسٹیٹ اور دنیا کے متعدد ممالک میں متحرک دیگر شدت پسند گروہوں کو دہشت گردی کے لیے بنیادی نظریات فراہم کیے ہیں اور یہ اعتدال پسند مسلمانوں میں شدت پسندی کا رجحان پیدا کر رہی ہے۔ ’’یہ معاملہ ایسا کہ ہم اسے جرمنی میں نہیں دیکھنا چاہتے۔‘‘
ایس پی ڈی کے رہنماؤں کی جانب سے یہ بیانات ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں، جب ملکی خفیہ ادارے بی این ڈی نے سعودی عرب کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں الزام عائد کیا ہے کہ ریاض حکومت عرب دنیا میں خود کو قائد منوانے کے لیے مداخلت کی خارجہ پالیسی پر گامزن ہے۔ بعد میں جرمن چانسلر کے ایک ترجمان نے سعودی عرب کو خطے میں کلیدی پارٹنر ملک قرار دیتے ہوئے اپنے ہی ملک کی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کو رد کر دیا تھا۔