1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سعودی عرب عراق کو میدان جنگ بنانے سے احتراز کرے‘

22 مئی 2018

آئی سی جی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو اپنے حریف ایران کے ساتھ جاری ’سرد جنگ کے تناظر میں عراق کو میدان جنگ‘ نہیں بنانا چاہیے اور ایران کو بھی بغداد حکومت کو اپنے سیاسی اتحادیوں کا چناؤ کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2y6Il
Bildkombo Ajatollah Ali Chamenei und Mohammed bin Salman
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/Office of the Iranian Supreme Leader/R. Jensen

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے حوالے سے بائیس مئی بروز منگل بتایا ہے کہ سعودی عرب اپنے ہمسایہ ملک عراق کو ’میدان جنگ‘ نہ بنائے۔ جغرافیائی لحاظ سے عراق سنی عقیدے کا پرچار کرنے والی ریاست سعودی عرب اور شیعہ نظریات کے ماننے والے ملک ایران کے درمیان واقع ہے۔ اسی لیے یہ ملک سعودی عرب اور ایران کے مابین ایک اہم اسٹریٹیجک علاقہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

خلیجی ممالک ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں، امریکی وزیرخارجہ

عرب معاملات میں ایرانی مداخلت کی مذمت کرتے ہیں، شاہ سلمان

سعودی عرب سے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں، روحانی

قطر کا بحران: کون کس کے ساتھ ہے؟

عراق میں گزشتہ ہفتے منعقد کیے گئے الیکشن میں مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کی غیر متوقع کامیابی کی وجہ سے اس عرب ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ مقتدیٰ الصدر عراق میں ایران کے اثرورسوخ کو روکنے کی خاطر پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے سعودی عرب کے ایک اچانک اور غیر متوقع دورے کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

عراق کے الیکشن میں دوسری بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھرنے والا سیاسی اتحاد ایران کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔ اس تناظر میں انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین پراکسی وار میں عراق ایک میدان جنگ بن سکتا ہے۔ یمنی بحران اور شام میں جاری خانہ جنگی میں بھی سعودی عرب اور ایران کے مابین اختلافات واضح ہیں۔ 

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی طرف سے جاری کی گئی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’عراق میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی خاطر ریاض حکومت کو ایران کے ساتھ جاری اپنی سرد جنگ میں عراق کو ایک نیا میدان جنگ بنانے سے احتراز کرنا چاہیے۔‘‘ سعودی عرب نے اگرچہ اسّی کی دہائی میں ایران اور عراق کے مابین ہونے والی جنگ میں بغداد حکومت کا ساتھ دیا تھا تاہم بعد ازاں نوّے کی دہائی میں عراقی آمر صدام حسین کی طرف کویت پر چڑھائی کے وقت سعودی عرب نے عراق کی کھلے عام مخالفت کی تھی۔

صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ دیے جانے کے بعد سعودی عرب اور عراق کے تعلقات میں ایک مرتبہ پھر گرمجوشی پیدا ہو گئی تھی۔ بالخصوص گزشتہ برس دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات میں زیادہ بہتری دیکھی گئی اور ستائیس برس بعد ان ممالک نے اپنی سرحدیں بھی کھول دیں اور کمرشل پروازوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔

رواں برس مارچ میں ہی سعودی بادشاہ سلمان نے وعدہ کیا کہ وہ عراق میں ایک فٹ بال اسٹیڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈ مہیا کریں گے۔ اس فٹ بال اسٹیڈیم میں ایک لاکھ تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہو گی۔ تاہم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی عراق میں دلچسپی میں اضافے کی واضح وجہ دراصل اس ملک میں ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ سعودی عرب کو عراقی ریاست کو مضبوط کرنے اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ عراق میں شیعہ عقائد کو اسلام کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کو کھلے عام قبول کرے اور سعودی عرب میں مقیم سنی مذہبی رہنماؤں کو شیعہ مخالف بیانات دینے سے روکے۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ دوسری طرف ایران کو بھی چاہیے کہ وہ عراق کی طرف سے اپنے علاقائی اتحادیوں کے چناؤ میں رخنہ نہ ڈالے۔

ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے